میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل داﺅ پر لگا دیا ہے، ہمیں ہرحال میں قانون کی بالادستی چاہیے۔ ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، میاں ثاقب نثار
کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، چیف جسٹس
کراچی میں آپریشن سے متاثرین کو اگر متبادل جگہ دینی ہے تو وہ سندھ حکومت کی ذمے داری ہے، ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا،چیف جسٹس آف پاکستان
سپریم کورٹ نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا تاہم پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی پر تحفظات ہیں، ایڈووکیٹ جنرل سندھ
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا، کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، سن لیں! غیر قانونی قبضے ہرگز برداشت نہیں کروں گا، جو کرنا ہے کریں، قبضے خالی کرائیں، کراچی صاف کریں، وفاق، سندھ حکومت اور میئر مل بیٹھ کر معاملہ دیکھیں، آپریشن سے متاثرین کو اگر متبادل جگہ دینی ہے تو وہ سندھ حکومت کی ذمے داری ہے، کیس کی سماعت آج (بدھ کی) صبح 8 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔ منگل کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق نظر ثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور احمد خان، میئر کراچی وسیم اختر اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔ سندھ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین پیش ہوئے جب کہ میئر کراچی وسیم اختر کی عدم موجودگی پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وسیم اختر کو فوری طلب کر لیا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے نظر ثانی کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا تاہم پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی پر تحفظات ہیں۔ انہوں نے مو ¿قف اختیار کیا کہ آپریشن کو بہتر انداز میں کیا جا سکتا ہے، جس دکان دار کی دکان گئی اس کا تو روزگار ہی چلا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کا علاقہ خالی کرا لیا گیا ہے؟ ہمارا پہلا حکم یہ تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کی تجاوزات کا خاتمہ کریں اور اب سندھ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنا فریضہ پورا کرے اور متاثرین کو اگر متبادل جگہ دینی ہے تو سندھ حکومت دے، ہم نے کب منع کیا ہے؟ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل کے طور پر صاف کرنے کا کہا تھا اور اب تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے صورت حال خراب کر دی ہے، ہر شخص چاہتا ہے کہ سڑک اور فٹ پاتھ پر تجاوزات کا خاتمہ ہو۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور آپ کو اور وفاقی حکومت کو پریشانی لگ گئی ہے، آپ کو اندازہ نہیں کہ میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل داؤ پر لگا دیا ہے، ہمیں ہرحال میں قانون کی بالادستی چاہیے، ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آ رہی ہے، ہمیں ہر حال میں قانون کی بالا دستی چاہیے۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ہم کراچی والے ہیں ہم بھی بہتری چاہتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیے کہ کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، گورنر صاحب نے کال کر کے کہا کہ یہاں امن و امان کی صورت حال خراب ہوگئی، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑدیں؟ لوگ احتجاج شروع کر دیں اور ہم ریاست کی رٹ ختم کردیں، کیا قبضہ مافیا کے سامنے سر جھکا دیں؟ کراچی کو اسی طرح چھوڑدیں؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کارروائی روک دیں گے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، متاثرین کی بحالی اور متبادل جگہ کا انتظام حکومت خود کرے۔ ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ چار ہفتے کا وقت دے دیں، مسئلے کا حل نکالیں گے۔ میئر کراچی نے کہا کہ ہم عمل درآمد کر رہے ہیں بس گھروں کو نہ توڑا جائے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے گھروں کو توڑنے کا حکم تو نہیں دیا، آپ خود کر رہے ہیں تو ہمارا مسئلہ نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے دیکھا تھا نالے پر عمارت بنی ہوئی ہے، اس کا کیا ہوا؟ ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ نہرِ خیام پر ایک عمارت بنی ہوئی ہے۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصلہ کریں جو کرنا ہے اور قانون کے مطابق کام کریں، آپ کو ایک ایک پارک کی زمین خالی کرانا ہو گی۔ میئر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ باغ ابنِ قاسم میں ایک عمارت ہے، وہاں مسلح لوگ بیٹھے ہیں اور شاید معاملہ ہائی کورٹ میں ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میئر صاحب آپ کو کسی نے نہیں روکا، کام جاری رکھیں، کون ہے قبضہ کرنے والا بتائیں، ابھی ہائی کورٹ سے فائل منگواتے ہیں، اچھی طرح سن لیں غیر قانونی عمارت اور قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہم مکمل سپورٹ کریں گے، سندھ حکومت، وفاقی حکومت اور میئر کراچی مل کر حکمت عملی بنائیں، جو بھی کریں لیکن قبضے ختم کرائیں۔
چیف جسٹس نے میئر کراچی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کیا رکاوٹیں ہیں؟ کیا سندھ حکومت کو نالوں پر قبضے خالی کرانے پر اعتراض ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ میئر کراچی کو چار ہفتوں کے لیے آپریشن سے روکیں وہ بہت تیزی سے تجاوزات گرا رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کیوں روکیں، آپ لوگ مل کر بیٹھیں، سندھ حکومت کہنا چاہ رہی ہے کہ قبضے ہو گئے ہیں اب انہیں قانونی تحفظ دے دیں۔ سلمان طالب الدین نے مو ¿قف اختیار کیا کہ تجاوزات کے دوران گھر توڑے جا رہے ہیں اور میئر کراچی کے پاس بحالی کا کوئی پلان نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میئر کراچی نے پورا پلان بنا رکھا ہے جب کہ بحالی کا منصوبہ بنانا تو سندھ حکومت کا کام ہے، ہم تجاوزات کے خلاف آپریشن بند نہیں کر سکتے ہیں کیوں کہ اب اگر ہم نے روک دیا تو پھر یہ کبھی نہیں ہو پائے گا۔ چیف جسٹس نے وفاقی اور سندھ حکومت کو میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر معاملات ٹھیک کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ رات کو بیٹھ کر آپس میں فیصلہ کر لیں کہ کیا اور کس طرح کرنا ہے ہم رات کو بھی یہیں پر ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ یہ کارروائی جاری رہنی چاہیے، اگر تسلسل ٹوٹ گیا تو پھر کام ہونا مشکل ہے، تینوں حکام ٹھنڈے دل سے فیصلہ کر کے آئیں۔ دوران سماعت ایک شہری نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر اویس مظفر ٹپی کی شکایت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ شاہ لطیف ٹاﺅن میں بڑے پیمانے پر ناجائز قبضہ ہے، بیوائیں روتی ہیں اور یہ قبضے اویس مظفر ٹپی نے کرائے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون ہے یہ ٹپی؟ کہاں ہے یہ ٹپی؟ اسے کل پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب کی حکومت یا کسی وزیر نے کہیں قبضہ کیا ہوا ہے تو فوری خالی کریں، میئر صاحب آپ بھی کان کھول کرسن لیں دو دن میں کسی رہنما یا کسی نے قبضہ کیا ہے تو خالی کر دے، آپ صفائی گھر سے شروع کریں اور لوگوں کے لیے مثال بنائیں، کسی کے قبضے کی نشان دہی ہو گئی تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔ چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت بدھ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے تک ملتوی کر دی۔
No comments:
Post a Comment