Islamic Articles

 اللہ کی رحمت اس کے غضب پر حاوی ہے
احتشام یار خان
عبداللہؓ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو نیکیاں اور برائیاں لکھنے کا حکم دیا، اس طرح کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ اسے ایک پوری نیکی شمار کر لیتا ہے اور جو شخص نیکی کا ارادہ کر کے اس پر عمل کرے، اس کے حساب میں ایک نیکی کے بدلے دس نیکیاں بلکہ سات سو نیکیاں اور اس سے بھی زیادہ لکھی جاتی ہیں اور جو شخص برائی کا ارادہ کرے اور برائی کو عمل میں نہ لاسکے (اللہ کے خوف سے یا کسی اور وجہ سے) تو اللہ رب العزت اپنے ہاں اس کے حساب میں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جو شخص برائی کا ارادہ کرکے اسے عمل میں بھی لائے تو صرف ایک برائی اس کے نامہ ¿ اعمال میں لکھی جاتی ہے۔“ (بخاری و مسلم)
اللہ تعالیٰ جس طرح اپنی ذات میں بے مثال اور بے مثل ہے اسی طرح اس کی ہر صفت ازلی و ابدی اور لامحدود ہے۔ تاہم اس کی صفتِ رحمت سب سے بڑھ کر ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ”میری رحمت وسیع ہے ہر شے پر۔“ (الاعراف)
حاملین عرش، مومنین کے حق میں اللہ کے حضور بخشش کی دُعاکرتے وقت کہتے ہیں: ”اے پروردگار! تیری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔ تو بخش دے ان لوگوں کو جو توبہ کریں۔“
بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مظہر ہے کہ جو شخص نیکی کا ارادہ کرتا ہے، اس کے نامہ ¿ اعمال میں ایک نیکی کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اگرچہ وہ شخص اپنے ارادے پر عمل نہ کر سکے اور اگر وہ اپنے ارادے کے مطابق نیک کام کرے تو اسے دس نیکیوں کے برابر بلکہ سات سو یا سات سو سے بھی زیادہ نیکیوں کا ثواب دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے حساب میں وہ برائی نہیں لکھی جاتی بلکہ اگر وہ برائی کے ارادے پر عمل نہیں کرتا تو اسے ایک نیکی کا ثواب ملتا ہے اور اگر وہ اپنے برے ارادے کے مطابق برائی کر گزرے تو اس کے نامہ ¿ اعمال میں صرف ایک ہی برائی درج کی جاتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے، وہ اپنے بندوں کی خطائیں معاف کرنا چاہتا ہے اور نیک کاموں پر زیادہ سے زیادہ اجر دیتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”جو کوئی ایک نیکی لاتا ہے، اس کے لیے دس گنا اجر ہے اور جو کوئی ایک برائی لاتا ہے تو اسے بس اس کی جزا ملے گی اور لوگوں پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ (سورة الانعام)
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے۔ بس اس کی رحمت کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت ہے۔
جو شخص بڑا گناہ گار ہو، پھر اسے ندامت ہو، توبہ کرے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے باز رہنے کا پختہ ارادہ کرے، اللہ کے حضور معافی چاہیے، تو ایسے آدمی پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اس قدر برستی ہے کہ اس کی برائیاں نیکیوں میں تبدیل کردی جاتی ہیں۔ الفاظ قرآنی ”اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔“ (سورة الزمر) کا یہی مطلب ہے کہ کوئی خطا کار اپنے بے حساب گناہوں پر نظر ڈال کر رحمتِ الٰہی سے مایوس نہ ہو بلکہ اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اللہ کو پکارے گا تو اللہ پاک کی بے پایاں رحمت سے نوازا جائے گا۔ سورة الفرقان میں ارشاد ہوا: ”مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ پاک تو بخشنے والا اور مہربان ہے۔“
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں، ان میں سے ایک رحمت اس نے جن، انسان، چوپایوں اور زہریلے جانوروں میں بھیجی ہے، اس رحمت کے سبب سے وہ آپس میں پیار و محبت اور مہربانی کرتے ہیں جب کہ ننانوے رحمتوں کو اللہ تعالیٰ نے قیامت کے لیے اٹھا رکھا ہے کہ وہ ان سے اس دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔ (بخاری و مسلم)
ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص جس نے کبھی کوئی نیک کام نہیں کیا تھا موت کے وقت اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب میں مرجاﺅں تو مجھے جلا دینا پھر آدھی راکھ جنگل میں اُڑا دینا اور آدھی دریا میں بہا دینا۔ اللہ کی قسم اگر اللہ نے مجھ پر قابو پالیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا جیسا دنیا میں پہلے کسی کو نہ دیا ہوگا۔ جب وہ بندہ مر گیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا اور اس کے اندر کی راکھ جمع کی، پھر جنگل کو حکم دیا اور اس کے اندر کی راکھ جمع کی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا: ”تو نے ایسا کیوں کیا؟“ اس نے عرض کیا: ”پروردگار، تیرے خوف سے اور تو یہ بات خوب جانتا ہے۔“ اس پر اللہ نے اسے بخش دیا۔ اگرچہ اس شخص کی وصیّت غلط تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے اس خوف کی وجہ سے اسے بخش دیا جو اسے قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا ہونے سے تھا۔ پس اللہ تعالیٰ سے خوف کھانا اللہ کی رحمت کو متوجہ کرتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو ایک کتاب لکھی جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے۔ اس کتاب میں یہ الفاظ ہیں ”میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔“ گویا اللہ کی رحمت کی کوئی حد نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت ہے، جتنی ایک ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک دفعہ جب ایک عورت کو اپنے بچّے کے ساتھ والہانہ محبت کرنے دیکھا تو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا: ”کیا تمہارے خیال میں، یہ عورت اپنے بچّے کو آگ میں ڈال دے گی؟“ صحابہؓ نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول ﷺ ہر گز نہیں۔“ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچّے پر مہربان ہے۔“
پروردگار اپنے بندوں پر مہربان ہے، پھر بھی انسان اپنی بری روش، سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے عذاب کا مستحق بن جائے تو اس سے بڑی بدبختی اور محرومی کیا ہوگی؟
عبداللہؓ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم کسی غزوے میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے۔ آپ ایک جماعت کے قریب سے گزرے اور پوچھا: ”تم کون لوگ ہو؟“ انہوں نے عرض کیا ہم مسلمان ہیں۔ اس جماعت میں ایک عورت کھانا پکا رہی تھی اور اس کا بیٹا اس کے پاس تھا۔ جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا تو عورت لڑکے کو پیچھے ہٹا لیتی۔ پھر عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ”کیا آپ اللہ کے رسول ہیں؟“ آپ نے فرمایا ”ہاں“ عورت نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! کیا اللہ بہت رحم کرنے والا نہیں؟ فرمایا ”ہاں“ عورت نے کہا: اللہ اپنے بندوں پر اس سے زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچّوں پر رحم کرتی ہے؟ فرمایا ”ہاں“ عورت نے کہا ماں تو اپنے بچّے کو آگ میں نہیں ڈالتی۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے سر جھکا لیا اور روتے رہے۔ پھر سر اٹھا کر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر عذاب نہیں کرتا سوائے ان لوگوں پر جو سرکش ہیں۔ یعنی اللہ سے سرکشی کرتے ہیں اور اس کا حکم نہیں مانتے اور لا الٰہ الاللہ کہنے سے انکار کرتے ہیں۔“ (ابن ماجہ)
جن احادیث میں اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور مغفرت کا مطلق ذکر ہے وہاں یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا وہ گناہ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک سے زائد مقامات پر دو ٹوک انداز میں فرما دیا ہے کہ شرک اللہ کے نزدیک ناقابل بخشش گناہ ہے۔ پس کسی انسان کا اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور بخشش کے باوجود اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مستحق ہوجانا بھی عین ممکن ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت اور مغفرت کا اُمید وار ہونے کے لیے لازم ہے کہ بندہ اپنے عقیدے کو شرک سے پاک کرے اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ مرد کے لیے کسی غیر اللہ کو نہ پکارے۔ نہ کسی کا وسیلہ دے اللہ تعالیٰ کو، کیوں کہ سورہ یونس آیت نمبر 18 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”یہ کہتے ہیں یہ ہمارے سفارشی ہیں اللہ کے پاس! مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”پاک ہے وہ ذات اور بلند و بالا ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔“
اگر شرکیہ عقیدے کے ساتھ نیک عمل کیے جائیں گے تو وہ اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرمائے گا۔ سورة النساءآیت نمبر 116 میں ارشادِ باری تعالیٰ: ”اللہ تعالیٰ شرک کو ہر گز معاف نہیں کرے گا اور جس کے لیے چاہے گا مشرک کے سوا گناہ معاف فرما دے گا۔ سورة الروم آیت نمبر 42 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”زمین پر چلو پھرو اور دیکھو تم سے پہلے بستیاں تھیں ان کو تہس نہس کردیا گیا کیوں کہ ان کی اکثریت مشرک ہوگئی تھی۔ لہٰذا بندے کو چاہیے کہ شرک سے پاک عقیدے کے ساتھ اپنے آپ کو نیک اعمال اور توبہ و استغفار کے ذریعے اس کا اہل بنانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مانے، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کرے۔ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والے کام نہ کرے۔ استغفار کو اپنا شعار بنائے۔ شرکیہ امور سے سخت اجتناب کرے، کیوں کہ شرک بندے کو اللہ کی بے پایاں رحمت سے محروم کردیتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ”بے شک جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا پس حرام کی اللہ نے اس پر جنت اور اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔“

No comments:

Post a Comment

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان لاہور (نیوز اپ ڈیٹس) وزیر اطلاعات پن...