ڈاؤ یونیوسٹی میں" کرپشن کے معاشرے پر سماجی اور اخلاقی اثرات" پر گیسٹ اسپیکر سیشن
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سول سوسائٹی کے نمائندوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں ٹھیکوں وغیرہ کے ذریعے سالانہ 60 ارب ڈالرز کی خریداری ہوتی ہے، جس میں 40 ارب ڈالرز کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، صرف 20 ارب ڈالرز ہی اصل مقصد، کام اور مقام پر لگ پاتے ہیں۔ انہوں نے یہ باتیں ڈاو ¿ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے آراگ آڈیٹوریم میں ماہانہ گیسٹ اسپیکر سیشن میں خطاب کرتے ہوئے کہیں جس کا موضوع ”کرپشن کے معاشرے پر سماجی اور اخلاقی اثرات“ تھا۔ مہمانوں میں معروف ٹی وی اینکر مبشر زیدی، سیٹیزن پولیس لائژن کمیٹی کے سابق سربراہ ناظم ایف حاجی اور انگریزی ماہنامے ہیرالڈ کے ایڈیٹر بدر عالم شامل تھے۔ اس موقع پر معروف سماجی شخصیت اور صنعت کار سردار یاسین ملک، ڈاو ¿ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پرفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی، ڈی ایم سی کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر کرتار ڈوانی اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد موجود تھی۔ تقریب کے شرکاءنے مہمانوں سے سوالات بھی کیے۔ اس موقع پر مہمان اور حاضرین نے عہد کیا کہ کرپشن سے نفرت بھی کریں گے اور اس سے حتی المقدور بچنے کی کوشش بھی کریں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ناظم ایف جی نے کہا کہ کرپشن کے خلاف میڈیا اور سیاست دانوں نے عوام کی توجہ مبذول کرائی ہے، اب جو نئی حکومت آئی ہے، اس کے تو سربراہ کا ایجنڈا ہی کرپشن کا خاتمہ ہے، عوام بھی اس بات کا تہیہ کر لیں کہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر کرپشن کے خاتمے کی کوشش کریں گے تو کرپشن جلد ہی ختم ہو جائے گی، ہم خود کو صحیح کر لیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ مقررین نے کہا کہ ہم کرپٹ لوگوں کو رول ماڈل بنا کر ترقی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے تعلیم یافتہ لوگ چوں کہ جلد سمجھ جاتے ہیں، اس لیے کرپشن کی شرح ایسے افراد میں زیادہ ہے، ناخواندہ افراد چوں کہ قانونی موشگافیوں کو نہیں سمجھتے اس لیے ان میں یہ شرح کم ہے۔ مقررین نے کہا کہ ہمارے یہاں یہ غلط تصور عام ہے کہ مالیاتی کرپشن ہی کرپشن ہے جب کہ کام چوری، بات چیت اور لوگوں سے تعلق کے درمیان بھی کرپشن ہوتی ہے، صرف مالیاتی کرپشن کو کرپشن نہیں سمجھنا چاہیے، ایسے رویے بھی تبدیل کرنے ہوں گے جو کسی بھی قسم کی کرپشن کی طرف لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کہا یہ جاتا ہے کہ صحت کے شعبے میں بھی کرپشن ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ایس آئی یو ٹی، انڈس اسپتال اور دیگر منصوبے ایسے ہیں جو لوگوں کی بہبود کا کام کر رہے ہیں اور کرپشن کا نام و نشان نہیں، ان اداروں سے ڈاکٹرز کے نام جڑے ہوئے ہیں جو صحت کے شعبے کی نیک نامی کا باعث ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیانت داری پر توجہ مرکوز رکھ کر ہی ہم کرپشن کو ختم کر سکتے ہیں۔ مقررین نے شرکاءپر زور دیا کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے قانون میں دیے گئے اپنے سارے حق استعمال کریں، اس طریقے سے بھی کرپشن کے خاتمے میں مدد ملے گی۔
No comments:
Post a Comment