****************
پاکستان میں نفاذ اردو کا لائحہ عمل
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
ترجمان پاکستان قومی زبان تحریک |
عدالت عظمیٰ میں نفاذ اردو کے مقدمے کا فیصلہ آ چکا ہے اور اسے اب قریباً تین سال بیت چکے ہیں۔ اب یہ سوال درپیش ہے کہ کیا لائحہ عمل اپنایا جائے کہ اردو کو کم سے کم وقت میں بہترین طریقے سے پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر نافذ کر دیا جائے۔
آئیے درج ذیل سطور میں اس خاکے میں رنگ بھرنے کی کوشش کریں جس کے ذریعے پاکستان میں پاکستان کی ’’قومی‘‘ زبان کو نافذ کرنے کا راستہ طے کیا جائے۔
1۔ سب سے پہلے ہمارے حکم رانوں کو اپنی نیت ٹھیک کرنا ہوگی اور یہ بات خلوص نیت کے ساتھ طے کرنا ہوگی کہ وہ پاکستان میں واقعی اردو کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔
2۔ انہیں اس بات کو بھی اپنے ایمان کا حصہ بنانا ہوگا کہ پاکستان میں اردو واقعی نافذ ہو سکتی ہے اور اس زبان کے استعمال کے ذریعے پاکستان میں تمام کام کیے جا سکتے ہیں اور یہ کہ ہمیں اس عمل کو فطری طریقے سے بروئے کار لانا ہے۔
3۔ اردو کو فی الفور دفتری نظام میں نافذ کر دیا جائے اور آئندہ تمام سرکاری اداروں میں تمام معاملات کے لیے خط و کتابت، تقرریاں، تعیناتیاں اور دیگر تمام امور اردو میں کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
4۔ ہر سطح پر تمام تر عدالتی کارروائی اردو میں کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
5۔ مقابلے کے تمام امتحانات اردو میں لیے جائیں۔
6۔ ایسے تمام مناصب جن کی ذمے داری سنبھالنے سے پہلے حلف اٹھایا جاتا ہے ان کے حلف اردو میں لیے جائیں۔
7۔ شروع ہونے والے تعلیمی سال سے تمام سطحوں پر تعلیم اردو میں دی جائے۔ تاہم ایسے کورسز جن کا دورانیہ 2 یا 2 سے زیادہ سالوں پر محیط ہے اور طالب علم ان کی پڑھائی شروع کر چکے ہیں، ایسی صورت میں طالب علموں کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ چاہیں تو ان کورسز کو انگریزی میں جاری رکھ کر مکمل کریں اور اگر چاہیں تو ان کو اردو میں تبدیل کروا لیں۔
7۔ (ا) ابتدائی تعلیم: بچوں کی تعلیم کے لیے کم از کم عمر 5 سال طے کی جائے اور اس سے چھوٹے بچوں کی تعلیم پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔
7۔ (ب) جہاں تک ابتدائی تعلیم کے لیے زبان کی بات ہے، ہر پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر، چیئرمین یونین کونسل اور والدین کے دو نمائندے اس بات کو طے کریں کہ اس اسکول میں تعلیم کس زبان میں دی جائے۔ اس معاملے میں مرکز، صوبے، ضلع، تحصیل یا شہر کی انتظامیہ کو مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔ اس طرح بچے اس زبان میں تعلیم حاصل کر سکیں گے جو اس مخصوص علاقے کی زبان ہو گی۔ ابتدائی دو سال کے بعد تمام تعلیم اردو میں دی جائے۔
8۔ تمام سطحوں پر انگریزی کی ایک لازمی مضمون کے طور پر تدریس فی الفور بند کی جائے۔
9۔ 20 بڑی ملکی اور غیر ملکی زبانوں کا ایک گروپ بنایا جائے۔ طالب علموں کو یہ اجازت ہو کہ وہ ان زبانوں میں سے کوئی ایک زبان چھٹی سے آٹھویں تک بہ طور ایک اختیاری مضمون پڑھ سکیں۔
10۔ تمام سرکاری اور نجی شعبہ جات میں شعبہ ہائے ’’لسانی امور‘‘ قائم کیے جائیں جن کا مقصد اردو میں کسی لفظ، جملے یا تحریر کی درستی کرنا ہو نیز اگر کہیں اردو یا کسی تحریر کے اردو ترجمے کے حوالے سے کوئی الجھن یا مشکل درپیش ہو تو اس کو حل کرنا بھی اسی شعبے کی ذمے داری ہو۔
11۔ تمام صوبائی دارالحکومتوں میں لسانی جامعات قائم کی جائیں جن میں دنیا کی تمام بڑی زبانیں پڑھانے کا بندوبست ہو۔ مقصد یہ کہ بڑی تعداد میں ایسے ماہرین پیدا کیے جائیں جو دنیا بھر کی زبانیں جانتے ہوں اور کسی بھی زبان میں موجود کتابوں کا ترجمہ براہ راست اردو میں کر سکیں۔ جامعات کے ساتھ دارالتراجم بھی قائم کیے جائیں جو مختلف زبانوں کے علوم کو اردو میں منتقل کریں اور اس کے ساتھ ساتھ اردو میں لکھی جانے والی کتابوں کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کریں۔
12۔ ایسے تمام ادارے جن کا کام غیر ممالک سے رابطہ کرنا ہے وہاں پر تمام بڑی بین الاقوامی زبانوں کے ماہرین موجود ہوں تاکہ ہم صرف امریکا اور برطانیہ سے ہی رابطے استوار کرنے (غلامی) میں نہ لگے رہیں بلکہ تمام دنیا ہمارے لیے کھلی ہو۔ اس طرح ہم ساری دنیا سے کاروبار اور تعلیم کے رابطے استوار کر سکتے ہیں۔
13۔ تمام کثیرالاقوامی اور ملکی تجارتی، دفاعی، صنعتی، ادویہ سازی اور دیگر مصنوعات بنانے اور درآمد یا برآمد کرنے والی کمپنیوں کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ آئندہ اپنا تمام تجارتی اور تعارفی مواد اردو میں بھی تحریر کرنے کی پابند ہوں گی۔
14۔ تمام اشتہاری بورڈز، بل بورڈز، دکانوں کے بورڈز، حکومتی و غیر حکومتی اداروں، عمارات، شاہرات کے تمام بورڈز اردو میں بھی تحریر کیے جائیں اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مناسب قانون سازی کی جائے۔ پاکستان کے عوام سے بھی یہ کہا جائے کہ وہ اپنے تمام بورڈز اردو میں تحریر کریں۔
15۔ تمام حکومتی عمال اور حکام کو پابند کیا جائے کہ وہ تمام قومی اور بین الاقوامی جلسوں میں قومی زبان میں گفتگو اور خطاب کریں۔
اردو نافذ کرنے کے لیے کسی لمبی چوڑی قانون سازی یا انتظامات کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ صرف ایک انتظامی حکم کے ذریعے نافذ ہو سکتی ہے۔ ایک دفعہ یہ حکم جاری کر دیا جائے پوری قوم جنگی بنیادوں پر اور ایک سرخوشی کے عالم میں اس کام میں حصہ لے گی، اگر آپ کو یاد ہو تو پاکستان بنتے وقت ہم نے انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں کام شروع کیا اور اس ملک کو قائم کر دیا۔ ایسا ہی جذبہ یہ قوم 1965ء میں بھی دکھا چکی ہے اور2005ء کے تاریخی زلزلے کے موقع پر بھی یہ قوم ساری دنیا کو اپنے جذبہ حب الوطنی اور خیراتی سرگرمیوں سے چونکا چکی ہے۔
یہ ہماری آزادی کا دوسرا مرحلہ ہے، ساری قوم اس تبدیلی کے لیے تیار ہے۔ یہ قدم اٹھانے کی دیر ہے، قوم اس کے لیے یکسو ہے، سرگرم عمل بھی ہو جائے گی۔
مقابلے کے امتحانات اور نصابی کتابوں کا ترجمہ:
نفاذ اردو کے مراحل کو کیسے آسان اور تیز رفتار بنایا جائے؟
ہمارا مطالبہ ہے کہ پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر اردو نافذ کی جائے۔ جب ہم یہ بات کہتے ہیں تو ہمارا تصور بالکل واضح ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اردو دفتری زبان ہو، کاروبار مملکت کی زبان ہو، مقابلے کے امتحانات کی زبان ہو اور یہی زبان علم کے تمام شعبوں کے لیے ہر سطح پر ذریعہ تعلیم ہو۔ آئین پاکستان کا بھی یہی تقاضا ہے۔
آئین پاکستان کی دفعہ 251
251. قومی زبان.
(1) پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، اور اسے سرکاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے (آئین کے) اجرا کے پندرہ سال کے اندر اندر انتظامات کیے جائیں۔
(2) شق (1) کو مد نظر رکھتے ہوئے انگریزی کو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے تا آں کہ اس کو اردو کے ذریعے بدل دینے کے انتظامات کیے جائیں۔
(3) قومی زبان سے کوئی تعصب برتے بغیر ایک صوبائی اسمبلی قانون سازی کے ذریعے قومی زبان کے ساتھ ساتھ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، فروغ اور استعمال کے لیے اقدامات تجویز کر سکتی ہے۔
6 جولائی 2015ء کے حکم نامے کے ذریعے دفتری زبان کی حد تک تو کچھ اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے تاہم جہاں تک مقابلے کے امتحانات اور ذریعہ تعلیم کی بات ہے یہ حکم نامہ بالکل خاموش ہے۔ آئیے ان کا ایک ایک کر کے جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ مقابلے کے امتحانات:
جہاں تک مقابلے کے امتحانات کی بات ہے ان کے لیے اردو کو فوری طور پر امتحانات کی واحد زبان قرار دے دینا چاہیے۔ یہ امتحانات پاکستانی دیتے ہیں اس افسر شاہی کا حصہ بننے کے لیے جو پاکستان کے لیے فرائض سر انجام دیتی ہے اور جس کی خدمات کا ہدف پاکستان اور پاکستانی عوام ہوتے ہیں۔ ہم سب کو یہ معلوم ہے کہ یہ امتحانات کٹھن ترین امتحانات سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی تیاری کے لیے امیدواران کئی برس تیاری کرتے ہیں اور اس دوران رات دن ایک کر دیتے ہیں۔ اب جب امتحانات کے لیے اردو کی بات ہوگی تو کئی لوگ کہیں گے کہ جناب ہم نے تو ساری تیاری انگریزی میں کر رکھی ہے۔ اردو میں امتحان کیسے دیں گے؟ ایسی صورت میں ان کو بتایا جا سکتا ہے کہ جناب یہ بھی آپ کا امتحان ہے کہ آپ اس امتحان کو اردو میں کیسے دیتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ اس بات کے بعد احتجاج کا سارا غلغلہ ختم ہو جائے گا اور تمام امیدواران سنجیدگی کے ساتھ امتحان کی تیاری کریں گے۔ آخر جب اس امتحان میں 98 فی صد تک امیدواران فیل ہو جاتے ہیں اور قیامت نہیں آتی تو ان امتحانات کو اردو میں لینے سے بھی کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ حکومت اطمینان رکھے۔
2۔ ذریعہ تعلیم:
اردو کوذریعہ تعلیم بنانا کوئی ایسا مشکل یا پیچیدہ کام نہیں ہے جسے کرتے ہوئے دانتوں تلے پسینہ آ جائے۔ یہ دو جمع دو چار کا عمل ہے تاہم اگر نیت خراب ہو اور اس قوم کو بنی اسرائیل کی طرح وادیوں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دینا مقصود ہو تو کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی دشت گردی تو 40 سال میں ختم ہو گئی تھی اس ملک کی بد نصیبی کا اندھیرا 72 سال بعد بھی چھٹتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
اردو کو ذریعہ تعلیم بناتے ہوئے جو سب سے بڑی رکاوٹ دکھائی جاتی ہے وہ اردو میں نصابی کتابوں کی عدم دست یابی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میٹرک تک چند سال پہلے تک سلیس اردو میں تمام نصاب موجود تھا، ضرورت صرف اس کے احیا کی ہے۔ جہاں تک بات ہے انٹر میڈیٹ اور ڈگری جماعتوں کے نصاب کی تو کراچی یونیورسٹی، فیڈرل اردو یونیورسٹی اور ابوالکلام آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی دہلی (بھارت) کے ماہرین نصاب سے اس بارے میں مدد لی جا سکتی ہے، جہاں تمام نصاب اردو میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن کے ارباب علم سے رابطہ کیا جائے تو وہ بھی ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
فرض کیجیے کہ ان سب ٹھکانوں سے کوئی مدد نہیں ملتی، پھر کیا کریں؟ آئیں دیکھتے ہیں کہ کتنی کتابیں ہیں جن کا ترجمہ کرنا ہے اور پھر اس کی حکمت عملی طے کر لیتے ہیں۔
بھلا کتنی کتابیں ہیں جن کا ترجمہ کیا جانے والا ہے۔
کمال تو ہمارے ماہرین منصوبہ بندی کرتے ہیں، اگر یہی سوال ان کو دے دیا جائے تو وہ ایک ایسا جواب دیں گے کہ پتا چلے گا کتابوں کا ایک کوہ ہمالیہ سے اونچا پہاڑ ہے اور دو چار مترجمین ہیں جو قیامت تک بھی یہ کام نہیں کر سکیں گے اور اس طرح پاکستانی قوم کو ہمیشہ کے لیے غلامی اور اندھیروں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ ماہرین سے استفادہ کرنے کے بجائے اس سوال کا جواب بھی خود ہی دے دیا جائے۔
کتابوں کا ڈھیر لگانے کے بجائے ان کی درجہ بندی کر دی جائے۔ کتابوں کو ان کے مضامین کے اعتبار سے علیحدہ علیحدہ کر لیا جائے۔ یعنی ریاضی کی کتابیں الگ، حیاتیات کی کتابیں الگ، کیمیا کی کتابیں الگ، طبیعیات کی کتابیں الگ، نفسیات کی کتابیں الگ، ارضیات کی کتابیں الگ، شماریات کی کتابیں الگ، طب کی کتابیں الگ، انجینئرنگ کی کتابیں الگ، اس طرح تمام مضامین کی علیحدہ علیحدہ درجہ بندی کر لی جائے۔
جب ہم اس طرح کریں گے تو ہمیں پتا چلے گا کہ کوئی بھی ایسا مضمون نہیں ہے جس کی میٹرک سے لے کر ماسٹر تک 50 سے زیادہ کتابوں کے ترجمے کی فوری ضرورت ہے۔ میں عرض کرتا ہوں۔
کیمیا:
میٹرک کے لیے 2 کتابیں، عملی کام کے لیے 2 کتابیں، انٹر میڈیٹ کے لیے 2 کتابیں، عملی کام کے لیے 2 کتابیں، ڈگری کے لیے 3 کتابیں، 3 عملی کام کی کتابیں، ماسٹرز کے لیے 15 کتابیں اور اتنی ہی عملی کام کی کتابیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کل کتابیں 50 بھی نہیں بن رہیں۔ اب اس کے بعد بات ہوگی اضافی و امدادی کتب اور جرنلز کی تو اس کی بات کچھ دیر کے لیے مؤخر کر لیتے ہیں۔
قریباً کم وبیش یہی حساب باقی مضامین کے لیے بھی ہوگا۔
کیا کیا جائے؟
میرے حساب سے ان کتابوں کے صفحات کم و بیش 10,000 ہوں گے۔
حکومت یہ اعلان کر دے کہ آئندہ تعلیمی سال سے تمام مضامین ہر سطح پر اردو میں پڑھائے جائیں گے۔
اخبارات میں اشتہار دیا جائے کہ کیمیا کے ایسے ماہرین کی ضرورت ہے جو خود کو اس بات کا اہل سمجھتے ہیں کہ وہ کیمیا کی نصابی کتب کا اردو میں ترجمہ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ اردو اور انگریزی کے ماہرین کو بتایا جائے کہ کیمیا کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا جانا مقصود ہے وہ ترجمے کے کام کی نگرانی کے لیے درخواست دیں۔
اب 100 کیمیا کے ماہرین کا انتخاب کر لیا جائے، 100 اردو اور 100 ہی انگریزی کے ماہرین کا انتخاب کر لیا جائے۔ ان کو ایک ماہ کی مدت دی جائے۔ تین تین ماہرین کا گروہ بنایا جائے، جس میں ایک اردو، ایک انگریزی اور ایک کیمیا کا ماہر ہو۔ ہر گروہ کے حصے میں کم وبیش 100 صفحات کا ترجمہ کرنے کا کام آئے گا جو وہ ایک ماہ کے عرصے میں بآسانی کر لیں گے۔ اس طرح ایک ماہ کے عرصے میں میڑک سے ماسٹر تک تمام نصاب کا اردو میں ترجمہ ہو جائے گا۔ ماہرین کے ہر گروہ کے ساتھ ایک ایک کمپوزر کو تعینات کیا جائے جو ترجمہ شدہ کام کو فوری طور پر کمپوز کر کے مترجمین کو واپس کرے جو اس کو حتمی شکل دینے کے بعد نگران ترجمانوں کے حوالے کر دیں جو اس کے معیاری ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد چھپنے کے لیے متعلقہ شعبے کے حوالے کر دیں۔ میرے نزدیک اس طریقے سے ہم روزانہ قریباً 2 سے تین کتابوں کو چھاپ کر عوام تک پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح ایک ماہ کے عرصے میں ہر مضمون کا میٹرک سے ماسٹر تک تمام کام اردو میں ترجمہ ہو کر طبع ہو کر بازاروں میں بکنے اور تعلیم و تدریس کے لیے متعلقہ لوگوں کے لیے دست یاب ہوگا۔
اب کٹ حجتی کے عادی اور خوئے بد رکھنے والوں کو صبر نہیں آئے گا۔ وہ فوراً کہیں گے کہ جناب جو تازہ ترین تحقیق ہو رہی ہے، جو جرنلز چھپ رہے ہیں ان کا کیا ہوگا؟ تو جناب جب یہ بنیادی کام ہو جائے تو ماہرین کے اسی طرح کے کئی گروہ بنا دیے جائیں جو یہ کام کریں، پھر گوگل والوں کے ترجمے کے سافٹ ویئر ہیں اور یہ بھی تو ہے کہ جب پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے پرکام ہو رہا ہوگا تو دنیا بھر میں ایسے سافٹ ویئر تیار ہونا شروع ہو جائیں گے جن کے ذریعے کتابوں کا، جرنلز کا اردو میں ترجمہ فوری بنیادوں پر ہو سکے۔ اور یہ بات بھی تو ہے جو دنیا کی ہر فلم کا اردو میں ترجمہ کر کے پاکستان بھیجتے ہیں وہ کیا اتنی بڑی مارکیٹ حاصل نہیں کرنا چاہیں گے۔ (پاکستان کی آبادی لگ بھگ 20 کروڑ ہے)
نگرانی:
اب جب پاکستان بھر میں نفاذ اردو کا کام شروع ہو چکا ہے تو اس کام کی نگرانی کی بھی ضرورت پڑے گی۔ اس کام کے لیے ملک بھر میں نفاذ اردو کمیٹیاں قائم کی جائیں جن کا کام ملک میں نفاذ اردو کی رفتار کا جائزہ لینا ہو۔ یہ کمیٹیاں کئی سطح پر قائم کی جا سکتی ہیں۔ ایک مرکزی کمیٹی ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام صوبوں میں صوبائی نفاذ اردو کمیٹیاں قائم کی جائیں۔ ہر محکمہ اپنی نفاذ اردو کمیٹی قائم کرے جس کا کام محکمانہ سطح پر نفاذ اردو کے کام کی نگرانی ہو۔ ہدف یہ طے کیا جانا چاہیے کہ ہم نے آئندہ سال کے موسم گرما کے آغاز سے قبل ملک کے تمام شعبوں میں ہر سطح پر اردو کو مکمل طور پر نافذ کرنا ہے۔
اس کے بعد کچھ سوالات جو ہر پاکستانی کے ذہن میں جنم لیتے رہیں گے وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔
آخر ہم نے 72 سال اس ملک پر انگریزی کو کیوں مسلط کیے رکھا، اس ملک کی ترقی اور خوش حالی کے پہیے کو انگریزی کی بریکیں کیوں لگائے رکھیں، کیوں ہم نے ان احمق اور جاہل تعلیمی ماہرین اور پالیسی سازوں کو اپنے ساتھ یہ سب کھلواڑ کرنے دیا؟ کیا ہمارے حکم رانوں میں سے کوئی ایسا ہے جس کے سینے میں پاکستانی دل دھڑکتا ہو اور وہ واقعی اس ملک کا خیر خواہ ہو، اس کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتا ہو۔ کوئی ہے؟
ق۔ع****************
"کیا انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے؟"
پروفیسر محمد سلیم ہاشمی
میرے بہت سے بھائی انگریزی کی اہمیت پر یہ کہہ کر زور دیتے ہیں کہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے، اسے لازماً سیکھنا
چاہیے۔
دوستو بالکل ٹھیک، میں بھی آپ کی اس بات سے متفق ہوں۔ میں مانتا ہوں ”انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے۔“ ٹھیک ہے انگریزی ایک بین الاقوامی زبان ہے اسے سیکھنا چاہیے۔ میرا حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے پاکستان میں بھی انگریزی کو اسی طرح مسلط کیا جائے جیسا کہ یہ دنیا کے دوسرے بڑے ملکوں میں ہے۔ اگر یہ زبان روس، جاپان، چین، فرانس، جرمنی، بیلجیم، ترکی، ایران، اسپین میں ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے اور ان ممالک میں ذریعہ تعلیم ہے اور ان ممالک کی سرکاری خط و کتابت اس زبان میں ہوتی ہے اور ان ممالک کی بیورو کریسی کا انتخاب اس زبان میں مہارت کی بنا پر ہوتا ہے، یعنی کہ ان ممالک میں یہ زبان مقابلے کے امتحانات کی زبان ہے اور ان ممالک میں وہاں کے حکمران اپنی قوم سے اور اقوام متحدہ سے اور دوسرے ملکوں میں جا کر اس زبان میں خطاب کرتے ہیں اور وہاں کے حکمران اور اعلیٰ عہدے دار اس زبان میں اپنے عہدوں کا حلف اٹھاتے ہیں تو اس زبان کو پاکستان میں بھی اسی طرح لاگو کر دیا جائے۔
غلامو! اپنی غلامی کو کیا کیا نام دو گے؟ تم میں تو ذرا سی بھی عقل سلیم نہیں ہے۔ ہاں تو غلام کیا میرے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیںکہ انگریزی کو دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح پاکستان پر مسلط کر دیا جائے؟
بین الاقوامیت کا بخار:
جی انگریزی اس لیے پڑھتے ہیں کہ یہ ایک بین الاقوامی زبان ہے۔ یہ ہے وہ جواب جو اکثر پاکستانی نابغے اس وقت دیتے ہیں جب انہیں انگریزی کے پڑھائے جانے کا کوئی معمولی سا جواز بھی سمجھ نہیں آتا۔
اکثر کی تو یہ کہتے ہوئے باچھیں کھل جاتی ہیں، گردن تن جاتی ہے اور سینہ پھول جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ان کو لندن سے شام سے پہلے پہلے وہاں پہنچنے کا سندیسہ آ چکا ہے یا پھر اگلے ہفتے ان کی نیو یارک میں سگائی ہے اور اگر یہ بات نہیں تو ان کی ڈیانا کی کسی بہن یا پھوپھی سے نسبت طے پا چکی ہے۔
کتنے پاکستانی ہیں جو اس بین الاقوامی سطح پر پہنچتے ہیں، رسائی حاصل کرتے ہیں جہاں انگریزوں سے لین دین کا، تعلیم کا یا میل جول کا معاملہ ہوتا ہے۔ کل کتنے، ایک سال میں کتنے، روز مرہ کی زندگی میں کتنے؟ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
جو پاکستانی پاکستان سے باہر ہیں ان کی آبادی کا کوئی تخمینہ بھی آج تک ایک کروڑ تو کیا پچاس لاکھ تک بھی نہیں پہنچا۔ جو اندازے (یا تکے) لگائے جاتے ہیں ان میں کہا جاتا ہے کہ 30 سے 40 لاکھ پاکستانی ملک سے باہر ہیں۔
اب اس قدر بڑی دنیا ہے، امریکا ہے، چین ہے، جاپان ہے، برطانیا ہے، فرانس ہے، روس ہے، پھر خلیجی اور عرب ممالک ہیں۔ آئیے اندازہ لگائیں کہ انگریزی بولنے والے ملکوں میں کتنے پاکستانی ہوں گے۔ اس تعداد کو جس قدر چاہے بڑھا چڑھا لیں یہ تعداد 10 لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اب عرب ممالک میں سے صرف سعودی عرب، کویت اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی تعداد 10 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔ اور ایک نجی چینل کہتا ہے پاکستان میں ہر سال اڑھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے۔ اچھاایک سال میں کتنے پاکستانی انگریزی بولنے والے ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ اس تعداد کو بہت زیادہ بھی کھینچ تان لیا جائے تو 5000 نہیں بنتی۔ اور یہ نجی چینل کہتا ہے پاکستان میں ہر سال اڑھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔
تو میرے بین الاقوامیت کا بخار چڑھے پاکستانیو! صرف پانچ سے دس ہزار لوگوں کی سہولت کے لیے تم نے سارا پاکستان، 20 کروڑ پاکستانیوں کا پاکستان انگریزی کے آگے ذبح کر کے پھینکا ہوا ہے۔
یارو مجھے بتاؤ تو سہی اور کس طرح مت ماری جاتی ہے؟
انگریزی کی محدودیت:
غلام کہتے ہیں انگریزی بہت بڑی زبان ہے۔ پھر وہ ایک لے پر جھومنا شروع کر دیتے ہیں۔ مست ہو کر ناچنا گانا شروع کر دیتے ہیں۔ (اچھا اس گانے میں کوئی لے، تال، سر، راگ، شاعری یا موسیقی تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں یہ غلاموں کا گانا ہے)
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
(اقبال)
”انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے .... یہ علم کی زبان ہے .... یہ ایک انٹرنیشنل لینگویج ہے۔“ اور ایسا کہتے ہوئے ان کی گردن اکڑ جاتی ہے، سینہ پھول جاتا ہے اور سر تن جاتا ہے۔ گویا یہ ان کے والد محترم کی زبان ہے جس کی شان بیان کرنا حق پدری ادا کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک علم، سائنس اور ٹیکنالوجی اور انگریزی کی بات ہے اس پر میں کئی دفعہ بات کر چکا ہوں اور آپ سب کو یہ باور کروا چکا ہوں کہ یہ عقل سے اتنی ہی دور بات ہے جتنا کہ لندن سے نیویارک دور ہے اور اس میں حقیقت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔
کئی بار میں ان سائنس دانوں، انجینئروں، ڈاکٹروں اور عالموں کی بات کر چکا ہوں جن کا انگریزوں یا انگریزی سے دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے اپنے شعبے کے امام تھے، نابغہ ہائے روزگار تھے۔ اس ضمن میں ارسطو، سقراط، ہومر، ارشمیدس، جالینوس، بو علی سینا، رازی، غزالی، ابن الہیثم اور بقراط سے لے کر پاسچر، آئن اسٹائن، لیون ہک، اسٹراسبرگر، لیوازے، بوائل، ٹیگور، اقبال، کانٹ، گوئٹے، ٹالسٹائی، موپاساں، والٹیئر، گورکی، عبدالقدیر خان اور بے شمار دوسرے اشخاص کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اب آ جائیے اس بات کی طرف کہ انگریزی ایک ”انٹرنیشنل لینگویج“ ہے۔ اچھا آئیں دیکھیں یہ انٹرنیشنل لینگویج کہاں کہاں بولی جاتی ہے، لکھی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔ برطانیہ، امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، آدھا کینیڈا اور شاید جنوبی افریقہ۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ انٹرنیشنل لینگویج پورے یورپ میں صرف برطانیہ میں استعمال ہوتی ہے اور برطانیہ میں بھی ویلز میں ویلش اور اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش استعمال ہوتی ہے۔ برطانیہ کا ایک ہم سایہ ملک آئر لینڈ ہے وہاں آئرش زبان استعمال ہوتی ہے۔
جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے وہاں کی انگریزی اور برطانیہ کی انگریزی میں وہی تعلق ہے جو امیتابھ بچن کی بولی ہوئی ہندی اور اردو میں ہے۔ انگریزی پاکستان، بھارت، فلپائن، زمبابوے، کینیا، نائیجیریا اور یوگنڈا میں بھی ہے، مگر کتنی ہے یہ آپ سب بہ خوبی جانتے ہیں۔
اچھا ان ملکوں میں چھدری چھدری انگریزی ہے مگر جہاں جہاں اور جس جس شعبے میں یہ ہے یہ بدعنوانی، بد انتظامی، نوسر بازی، دھوکا دہی، فریب کاری، وطن فروشی اور کئی دیگر گھناو ¿نے جرائم کے ساتھ گندھی ہوئی ملتی ہے۔ اس کا ان ممالک میں خالص حالت میں پایا جانا ناممکنات میں سے ایک بات ہے۔
اچھا اب اگر آپ انگریزی سیکھ کر فرانس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے، اگر روس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے اور یہی حال جرمنی، سویڈن، ڈنمارک، ناروے، اسپین، پرتگال، مالٹا، ترکی، ایران، سعودی عرب، چین، ملائیشیا، انڈونیشیا، کوریا، جاپان اور دنیا کے 200 دیگر ممالک میں جانے والوں کا بھی ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں جتنے انگریزی بولنے والے ملتے ہیں شاید اس سے کچھ زیادہ ہی اردو بولنے والے بھی مل جائیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں انگریزی بولنے والوں سے باقاعدہ نفرت کی جاتی ہے اور ان کو سننے، سمجھنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
اب جب پاکستانی اپنے زعم میں انگریزی سیکھ کر اپنے آپ کو چیمپین سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو دراصل وہ اپنے آپ کو دنیا کے ان چند ممالک تک محدود کر دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم، ان کی ملازمتیں، ان کے کاروبار بھی اسی حوالے سے محدود ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان انہی ممالک کا غلام بن کر رہ گیا ہے حالاں کہ دنیا ان ممالک کے دائرے سے بہت زیادہ اور ان ممالک کے دائرے سے باہر ہے مگر پاکستانیوں کی بد قسمتی ملاحظہ کریں کہ ہمارے غلام حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے ہمیں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے سے تعلقات بنانے سے، وہاں جا کر تعلیم حاصل کرنے سے ان کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار کرنے سے روک دیا ہے۔
اب جن لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا ایک عالمی گاو ¿ں (یا ایک عالمی کمرے) میں بدل چکی ہے، دنیا سکڑ چکی ہے اور اب یہاں (ان کی دانست میں) انگریزی کا چلن ہے وہ سوائے احمقوں کی جنت کے پانی میں رہنے اور ڈبکیاں لگانے کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ اب بھلا یہ تو بتائیں کہ وہ یورپی یونین جس کی کرنسی ایک ہے، جس کا جھنڈا ایک ہے، جس کی ایک پارلیمنٹ ہے، جس کے رکن ممالک کی سرحدیں ختم ہو چکی ہیں۔ کیا اس یورپی یونین نے کسی ایک زبان کو رابطے کی زبان مان لیا ہے۔ کیا اس یورپی یونین نے انگریزی کی بالا دستی کو تسلیم کر لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
میں سائنس کا طالب علم ہوں۔ اب سائنس کی دنیا میں یونانی، لاطینی اور فرنچ کو انگریزی سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ سائنسی اصطلاحات اور تشریحات میں انگریزی کا کوئی مقام نہیں ہے)۔ قانون اور طب میں یونانی اور لاطینی کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کا انگریزی تصور بھی نہیں کر سکتی۔
فٹ بال کی بین الا قوامی تنظیم (فیفا) اور اولمپکس (او آئی سی) کی بین الاقوامی تنظیموں کے نام تک انگریزی میں نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانیں ہیں جن میں سے ایک انگریزی بھی ہے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ کی واحد سرکاری زبان تک نہیں ہے۔
اب جب یورپی یونین، اس کے رکن ممالک اور اقوام متحدہ نے انگریزی کو کسی قابل نہیں سمجھا تو پاکستانی بزرجمہر کیا یورپی یونین کے رکن ممالک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے زیادہ ”گلوبلیائی“ ہو گئے ہیں۔ ان کو علم ہونا چاہیے کہ دنیا کے اندر پاکستانی غلاموں کے سوا انگریزی کو وہ اہمیت دینے کو کوئی ذی ہوش انسان تیار نہیں جو اہمیت یہ اپنے زعم میں انگریزی کو دے رہے ہیں۔
بات صرف غلامی کی ہے اور اس سے نہ نکلنے کی ہے اور غلامی ہی کو طرز حیات اور مقصد حیات سمجھنے کی ہے، ورنہ جب انگریز اس ملک سے دفع دور ہوئے تھے ان کے ساتھ ہی اس زبان کو بھی اس ملک سے دیس نکالا دے دینا چاہیے تھا۔
کیسی عجیب بات ہے ساری دنیا میں ہر شخص غلامی کو اور اس کی ہر نشانی کو باعث نفرت سمجھتا ہے اس سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے، اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور غلامی سے نکلتے ہی غلامی اور اس کی تمام نشانیوں کو مٹا ڈالتا ہے مگر پاکستانی قوم ہے کہ غلام رہنے، اس کی نشانی کو گلے کا ہار بنائے رکھنے، اس زنجیر کو پاو ¿ں میں ڈالے رکھنے اور اس طوق کو گردن میں آویزاں کیے رکھنے پر بہ ضد ہے۔
ہے خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے
جی انگریزی ایک انٹرنیشنل لینگویج ہے۔ جی کیوں؟ کیوں کہ ہم اسی طریقے سے اس ملک کے 20 کڑور لوگوں کو بہ دستور غلام بنائے رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہے اس انٹرنیشنل لینگویج کی حقیقت۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی۔
اب کیا کیا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ذریعہ تعلیم کے طور پر ہمارے نظام تعلیم پر انگریزی کے مسلط ہونے اور اس کی بربادی کے عمل کو فی الفور بند کیا جائے۔
انگریزی کو ایک لازمی مضمون کے طور پر پڑھانا بند کیا جائے۔
ہر شعبہ زندگی سے اس کے عمل دخل کو ختم کیا جائے۔
ہر قسم کے فارم، درخواست اور تعارفی پرچوں کو اردو میں چھاپا جائے۔
اعلیٰ تعلیم، مقابلے کے امتحان اور تمام ملازمتوں کے لیے انٹرویو اردو میں لیے جائیں۔
تمام عدالتی، انتظامی، دفتری اور کاروباری امور سے انگریزی کو بے دخل کر کے اردو کو رائج کیا جائے۔
جہاں تک اہم ملکی اور غیر ملکی زبانوں کی بات ہے، 20 زبانوں کا ایک گروہ بنایا جائے جس میں سے طالب علم کسی ایک زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر چھٹے سے آٹھویں درجے تک پڑھ کر اس کی مناسب شد بدھ حاصل کر سکیں۔ اس طرح پاکستان اور پاکستانی صرف چھ (6) ملکوں کے غلام بنے رہنے کے بجائے ساری دنیا سے تعلقات قائم کر سکیں گے، آ جا سکیں گے اور آزاد رہنے کے رنگ ڈھنگ سیکھ سکیں گے۔
کیا ہمارے حکمران، ارباب بست و کشاد، رہنما اور عوام ”آزادی، ترقی، خوش حالی اور کام یابی کے راستے کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں یا بدستور غلامی، ذلت، رسوائی اور ناکامی کے گڑھے میں ہی پڑا رہنا چاہتے ہیں۔
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم۔
ق۔ع
No comments:
Post a Comment