دنیا بھر میں 50 ملین افراد کو (ایپی لیپسی) مرگی کے دورے پڑتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد مردوں کی یعنی 64% ہے
رتھ فاﺅ سول اسپتال کراچی میں رورانہ اعصابی امراض کے علاج کے لیے آنے والوں میں 20 سے30 فی صد افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں
کراچی (اسٹاف رپورٹر) ڈاﺅ میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر کرتار ڈوانی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں 50 ملین افراد کو (ایپی لیپسی) مرگی کے دورے پڑتے ہیں، ان میں زیادہ تعداد مردوں کی یعنی 64% ہے جب کہ شہروں میں اس مرض سے متاثرہ مردوں کی تعداد 60% ہے، رتھ فاﺅ سول اسپتال کراچی میں رورانہ اعصابی امراض کے علاج کے لیے آنے والوں میں 20 سے30 فی صد افراد مرگی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بات انہوں نے ڈاﺅ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے معین آڈیٹوریم میں پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے اشتراک سے منعقدہ ایپی لیپسی آگہی ورکشاپ سے بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہی۔ جس سے ان کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر حسن عزیز، پروفیسر نائلہ، پروفسیر زرین، ڈاکٹر سرفراز احمد، ڈاکٹر رملہ ہاشمی، ڈاکٹر سارہ، ڈاکٹر سید گوہر علی، ڈاکٹر معراج، ڈاکٹر قمر اور ڈاکٹر جنید نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر فیکلٹی ممبرز کے علاوہ طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پروفیسر ڈاکٹر کرتار ڈوانی نے کہا کہ مرگی قابلِ علاج مرض ہے، دواﺅں کے ذریعے اس کا علاج ممکن ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر حسن عزیز نے کہا کہ یہ کوئی چھوت چھات، بھوت پریت کی بیماری نہیں بلکہ یہ ایک اعصابی بیماری ہے، اس کی تشخیص کے لیے مختلف تکنیک موجود ہیں، عام طور پر اس مرض کے متعلق غلط تصورات ہیں، جس کے نتیجے میں اس مرض کی تشخیص درست طور پر نہیں ہو پاتی۔ دیگر مقررین نے کہا کہ چوںکہ اس مرض میں ہاتھ پاﺅں کا اکڑنا، آنکھیں اوپر چڑھ جانا، پیشاب یا پاخانے کا نکل جانا، بیہوش ہو جانا، زبان کٹ جانا یا منہ سے جھا گ آجانا علامتیں ہیں، جسے لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر پیروں، فقیروں اور عملیات کے ماہرین سے رجوع کرتے ہیں۔ مقررین نے کہا کہ حکومت اس مرض کے غلط تصورات کے خاتمے کے لیے خصوصی پروگرام ترتیب دے تاکہ دور دراز علاقوں کے عوام کے ذہنوں سے اس مرض کے بارے میں تصورات درست ہوں اور وہ اس مرض کو صرف ایک بیماری سمجھیں اور علاج کے لیے مستند ڈاکٹرز سے رجوع کریں۔ انہوں نے کہا کہ مرگی کے بارے میں لوگ سمجھتے ہیںکہ یہ ایک مریض سے دوسرے کو لگ جاتا ہے، یہ تاثر قطعاً غلط ہے۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر کرتار ڈوانی نے مقررین میں شیلڈ تقسیم کیں۔
No comments:
Post a Comment