Articles


٭٭٭٭٭
حجاب ۔۔۔ مسلم عورت کا وقار
پوری دنیا میں حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان فروغ اسلام کا مظہر بن چکا ہے
فوزیہ افضل
دور حا ضر میں جتنا زیادہ فیشن کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، اتنا ہی نوجوان نسل میں طرح طرح کے عبایا اور اسکارف پہننے کا رواج فروغ پا رہا ہے۔ صرف مسلم ممالک اور معاشروں میں ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک میں بھی اسے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور وہاں بیشتر مسلمان خواتین پابندیوں اور اعتراضات کے باوجود کثرت سے حجاب استعمال کرنے لگی ہیں۔ معاشرے میں بھی تبدیلی آئے گی یا یہ صرف فیشن کا حصہ بن جائے گی کچھ بھی ہو مگر اس سے بڑھتی ہوئی بے حیائی ظاہری طور پر ہی صحیح قابو میں آ سکے گی۔
حجاب مسلمان عورت کے لباس کا اہم جزو ہے مگر فیشن کی دوڑ میں شامل خواتین اس سے بے نیاز ہوتی جا رہی ہیں مگر اب نوجوان نسل نے حجاب کوشرفِ قبولیت دیا ہے اور کالج و یونیورسٹی جانے والی لڑکیوں کی بڑی تعداد اسے لازمی پہن رہی ہے۔ اب یہ صرف پردہ ہی نہیں ہے بلکہ فیشن کا حصہ بھی بنتا جا رہا ہے۔ خواتین اسکارف کو حجاب کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سر پر اوڑھ کر گردن کے گرد لپیٹ لیتی ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اسکارف پہننے کا رواج روم سے شروع ہوا اور سب سے پہلے مردوں نے اس کا استعمال شروع کیا تھا۔ وہ اسے موسم گرما میں سر ڈھانپنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ عرب بھی اس کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے پھر خواتین نے بھی اس کا استعمال شروع کردیا۔ فیشن ایبل خواتین کے استعمال کے بعد اسکارف میں فیشن کے نت نئے انداز شامل ہوگئے۔
اسکارف کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دوپٹے کے ساتھ ساتھ حجاب کی ضرورت کو بھی پورا کرتا ہے۔ عورتوں کے لیے حجاب حکم الٰہی ہے اور قرآن پاک میں بیش تر مقامات پر عورتوں کو حجاب کی تلقین کی گئی ہے۔ خواتین کی اکثریت اسکارف پسند کرتی ہے۔ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے علاوہ طالبات بھی فیشن کی دوڑ میں شامل ہونے کے باوجود مذہب سے لگاؤ کے باعث اسکارف یا حجاب کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ حجاب اور اسکارف کے استعمال میں اضافے کی ایک وجہ مختلف مغربی ممالک میں حجاب کے استعمال پر پابندی کا پہلو بھی ہے جس نے خواتین کو اپنی مذہبی اور مشرقی اقدار کی جانب مائل کر دیا۔ اب مغرب میں بھی حجاب کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسکارف اوڑھنے کے کئی طریقے ہیں۔ روز مرہ زندگی کے پہناوے سے لے کر تقریبات کے ملبوسات کے لیے اسے مختلف انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاہ اور سفید رنگ کے سادہ اسکارف روزمرہ زندگی میں سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ تقریبات کے لیے استعمال کیے جانے والے اسکارف میں نت نئے انداز نظر آتے ہیں۔ اسکارف کی تزئین و آرائش سے لے کر اسے اوڑھنے تک کے کئی انداز ہیں۔ اسکارف اوڑھنے سے قبل خواتین عموماً بالوں کا اونچا جوڑا باندھ لیتی ہیں۔ اس طرح اس پر اوپراُٹھے ہوئے اسکارف کی فال نیچے کی طرف آتی ہے جوبہت خوب صورت لگتی ہے۔ اسکارف کو باندھنے کے لیے گرہ بھی لگائی جاتی ہے اور چُٹ دار انداز میں پِن بھی لگائی جاتی ہے۔ عام اسکارف کو تو سادہ پن سے باندھا جاتا ہے لیکن تقریبات میں استعمال کے لیے اسکارف کی گرہ لگانے کے لیے خوب صورت بروچ استعمال کیے جاتے ہیں۔ موتی اور نگینوں کے جڑاؤ والے بروچ پھول، چاند، ستاروں، مور پنکھ اور دیگر خوب صورت شکلوں میں دستیاب ہیں۔اسکارف عموماً جارجٹ، سلک یا کرنکل کپڑے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ سوتی کپڑے، جاما دار اور مخمل کے اسکارف بھی استعمال ہوتے ہیں لیکن نسبتاً کم۔ خوش نما پرنٹس کے اسکارف کو آرائشی بروچ کے علاوہ مزید تزئین کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن سادہ اسکارف کی آرائش کے لیے زردی، تِلے، سلمیٰ ستارے، نگینے، موتی اور جھالروں سمیت بہت سی اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔ خواتین لباس کے ہم رنگ اسکارف پسند کرتی ہیں لیکن اکثریت سیاہ رنگ کو ترجیح دیتی ہے جو عموماً ہر رنگ کے لباس کے ساتھ بھلا لگتاہے۔ سیاہ رنگ کے اسکارف پر معمولی سی آرائش بھی کھل اُٹھتی ہے۔
**************************************
آزادی اظہار کے دیس میں دستور زبان بندی
ابلاغیات کی طالبہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اکثر کلاسوں میں آزادی اظہارِ رائے کا درس سننے کو ملتا ہے یعنی جو جی میں آئے کہہ دیجیے اور اِس اظہارِ رائے کا حق ہر فرد کو حاصل ہے۔ اِس حوالے سے مجھے جن مفکرین، دانش وروں، اہل علم کی مثالوں، قوانین اور نظریات سے واسطہ پڑا، ان سب کا تعلق امریکا اور یورپ سے ہے۔ بعض اوقات میں سوچتی ہوں کہ مسلمانوں نے ایسا کوئی کارنامہ کیوں سر انجام نہیں دیا۔ اسلام نے تو آج سے چودہ سو سال پہلے بنیادی انسانی حقوق کا تصور پیش کیا تھا مگر آزادی اظہارِ رائے پر ہمیں مسلم اسکالرز کی رائے کیوں نہیں بتائی جاتی؟ کئی بار یہ سوال کلاس میں اساتذہ کرام سے بھی پوچھ بیٹھی۔ جواب میں مجھے ہر بار بتایا گیا کہ ’’بیٹا! آزادی اظہارِ رائے بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور امریکا و برطانیہ میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔‘‘
یہی وہ وقت تھا جب سے مغربی تہذیب اور ان کے خیالات میرے لیے آئیڈیل بن گئے تھے مگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا بڑھتا ہوا استعمال اور بے باکی کے بعد مجھے مغرب کا جو چہرہ دیکھنے کا موقع ملا اُس کے بعد میرا مغربی تہذیب کو آئیڈیل سمجھنے کا بُت کرچی کرچی بکھرتا چلا گیا۔ میرے خیالات منتشر ہونا شروع ہوگئے۔ ابلاغیات کی طالبہ ہونے کے ناطے میں نے ان ٹکڑوں کو سمیٹنے کی بھرپور کوشش کی مگر ان کرچیوں نے میرے ہاتھ اور خیالات کو زخمی کرنے کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مایوسی اور نا امیدی مجھے گھیرتی رہی۔ دو سال قبل کی بات ہے، سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ آدم صالح کو امریکن ایئرلائن ڈیلٹا سے صرف اِس لیے باہر نکال دیا گیا کہ انہوں نے اپنی ماں سے عربی میں گفتگو کی تھی۔ بعد ازاں آدم صالح کی ایئرپورٹ پر جامع تلاشی لی گئی اور مکمل انٹرویو کے بعد اُسے اگلی فلائٹ کے ذریعے منزل کی جانب بھیجا گیا۔ آدم صالح نے اس سارے واقعے پر ایک ویڈیو بنا کر فیس بک اور یوٹیوب پر اپ لوڈ کی، جس میں امریکی معاشرے کی بے حسی اور اس کے حقیقی چہرے پر دکھ اور حیرانی کا اظہار کیا۔ یوٹیوب پر مقبول اسٹار آدم صالح نے اپنی اس ویڈیو میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ2016ء ہے اور امریکی معاشرہ تبدیلی کا دعوے دار ہے، اس معاشرے میں اس طرح کا رویہ میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اِس دورِ جدید میں انسانی حقوق کے دعوے دار معاشرے کی جانب سے میرے ساتھ روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک زمانہ قدیم میں بھی نہیں ملتا۔ آدم کی ویڈیو اور ٹوئٹس کے بعد ڈیلٹا ایئر لائن نے مؤقف اختیار کیا کہ مذکورہ مسافر کی جانب سے عربی زبان میں گفتگو کے بعد بہت سارے مسافروں نے شکایت کی اور کہا کہ اس مسافر کے ساتھ سفر میں وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے۔ ایک درجن سے زائد مسافروں کی شکایت کے بعد ہی آدم کو پرواز سے اتارا گیا۔ یہ رویہ صرف آدم کے ساتھ نہیں روا رکھا گیا بلکہ اسی سال ایک مسافر کی جانب سے عربی میں ان شاء اللہ کہنے کے بعد ایک خاتون کی جانب سے پرواز انتظامیہ کو شکایت کی گئی جس کی وجہ سے اسے بھی پرواز سے اتار دیا گیا۔ اسی طرح اک شخص کو اپنی بیوی کو عربی زبان میں ٹیکسٹ میسج لکھتے دیکھ کر پرواز سے اتاردیا گیا تھا۔ یہ واقعات سوشل میڈیا پر آنے کے بعد ہی میرے علم میں آئے۔ کچھ نیوز ویب سائٹس کھنگالنے کے بعد یہ انکشاف بھی ہوا کہ امریکا اور یورپ میں ایسے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں۔ عربی زبان بولنے کی وجہ سے مسافروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کے بعد ان کو ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ ہے اِس مغرب کا چہرہ، جہاں کوئی دوسری زبان نہیں بولی جاسکتی۔ آدم کے معاملے میں چار پاکستانی مسافروں نے پائلٹ اور مسافروں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مذکورہ مسافر عربی میں اپنی والدہ سے گفتگو کر رہا ہے مگر ان کی بات بھی کسی نے نہیں سنی۔ دوسری جانب پائلٹ خود بھی جانتا تھا کہ وہ غلطی پر ہے مگر ہجوم کے سامنے وہ خود کو بے بس خیال کر رہا تھا۔ آدم کی دو ویڈیوز میں نے بھی دیکھیں اور بار بار دیکھیں۔ ٹوئٹر پر آدم اور ایئرلائن کے ٹوئٹس پڑھے۔ اِس معاملے پر مختلف انگریزی اخبارات کی خبریں اور تبصرے دیکھے، میں حیرانی کے سمندر میں غوطے کھانے لگی، کیسا گھناؤنا چہرہ ہے، آزادی اظہارِ رائے پر مادر پدر آزاد معاشرہ تخلیق تو پا گیا مگر کیا وجہ ہے کہ یہاں آزادی کا تصور محض گوری چمڑی کے لیے ہی ہے؟ ہاں اسی معاشرے میں جہاں ایک کالے کو صدر بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ یہاں رنگ و نسل کا کوئی امتیاز نہیں تو دوسری جانب مسلمان امریکیوں اور سیاہ فام باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں پہلے سے زیادہ تیزی دیکھنے کو ملی۔ مجسمہ آزادی نصب کر کے خود کو آزاد تصور کرنے سے بہتر ہے کہ جیتے جاگتے انسانوں کو اُن کے حقوق دیے جائیں۔ آج کے جدید دور میں غلامی کا تصور جہاں محال ہے، وہاں زبان اور ثقافت کے نام پر امتیاز بھی ممکن نہیں ہے۔ مغربی معاشرہ اخلاقی پستی اور ذہنی معذوری کا شکار نظر آتا ہے۔ میرے سامنے وہ تمام سراپے گردش کر رہے ہیں جو نسلی امتیاز کا شکار نظر آتے ہیں، ان میں باریش مسلمان اور عام افریقی نہیں بلکہ مغربی معاشرے کے رنگوں میں رنگے ہوئے روشن خیال مسلمان اور اعلیٰ عہدوں پر اپنے فرائض ادا کرنے والے افریقی شامل ہیں۔ میں اُن سب میں وہ وجوہ اور اُن کی غلطیان تلاش کرنے کی جستجو میں مگن ہوں۔ مجھے اُن کے اندر تو غلطیاں نظر نہیں آئیں مگر مغرب میں پروان چڑھنے والا ایک خاص ’’مائنڈ سیٹ‘‘ اس سارے عمل کی بنیاد نظر آتا ہے۔ انکل سام کے دیس کے باسیو! یاد رکھو معاشرے تباہی کی جانب تبھی گام زن ہوتے ہیں جب ان میں امتیازی رویے پروان چڑھتے ہیں۔ معاشروں کو تباہی کی جانب دھکیلنے والے عوامل میں بنیادی عمل نسلی امتیاز ہے۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ اپنے معاشرے کی بقاء کے لیے آپ کیا اقدامات کرتے ہیں۔
*********************
تحریکِ پاکستان سے اب تک

صائمہ فرید احمد

پاکستان کی تخلیق دراصل 1857ءمیں جنگ آزادی میں تکمیل کی طرف ایک مثبت قدم سر سید احمد خان کی تحریک علی گڑھ کا منطقی ارتقاءاور اسلام کی ایک جدید ترین تجربہ گاہ تھا۔ اس کی تعمیر میں ہمارے زعماءکے ارفع مقاصد اور اعلیٰ آدرش کار فرما تھے۔
بنگال کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی، نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب محسن الملک، مولوی فضل الحق، ممتاز دولتانہ، افتخار حسین ممدوٹ، خان عبدالقیوم خان، چوہدری محمد علی، راجہ صاحب محمود آباد، بیگم تصدق حسین، محترمہ فاطمہ جناح اور ہمارے ہر دل عزیز قائد اعظم محمد علی جناح جن کی ولولہ انگیز قیادت میں مملکت پاکستان 14 اگست 1947ءمیں وجود میں آیا۔ یہ آزادی ہمیں تھالی میں رکھ کر پیش نہیں کی گئی بلکہ اس عظیم جدوجہد کے پیچھے لاکھوں مسلمانوں کی قربانیاں شامل ہیں جو تقسیم ہند کے لیے مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد ناکام بنانے کے لیے ہر نوع کے حربوں کو ناکام کرنے میں کام یاب رہے۔ ایک علیحدہ وطن حاصل کرنے میں کام یابی کے لیے ہندوﺅں اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ہم نے 14 اگست 1947ءسے جس قومی سفر کا آغاز کیا اور اب تک اپنی شاہراہ پر جو سنگِ میل تعمیر کیے وہ اس عظیم حقیقت کی شہادت دیتے ہیں کہ ایک سنجیدہ کوشش کے ذریعے آج کے بپھرے ہوئے حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے اور مستقبل کی زلف و رخسار تاب دار بھی بنائے جا سکتے ہیں جب ہم کچھ نہیں تھے تو اللہ ہمارے ساتھ تھا اور اس نے ہمیں کڑی آزمائشوں سے گزرنے کا عزم اور حوصلہ عطا کیا، نازک مرحلوں میں اپنی طرف سے وافر وسائل فراہم کیے اور نعمتوں کی بارش جاری رکھی۔ یہ اس کی کرم فرمائی تھی کہ بھارتی یلغار کے بعد پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقت ور ہوتا گیا۔
ہم یقیناً اپنے وطن کا تحفظ کرنے اور سرکش لہروں پر قابو پانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے پُر امید ہیں کہ نازک ترین مرحلوں میں وہ ہماری اعانت فرمائے گا اور ملک کے بعض حصوں میں جو شورش برپا ہے وہ آگے چل کر نئے امکانات کا سرچشمہ ثابت ہوگی۔
پاکستان جو ایک تاریخ ساز سیاسی اور جمہوری جدوجہد سے قائم ہوا اس پر مغربی پاکستان کے وڈیرے اور طالع آزما بیورو کریٹ قابض ہوگئے اور ایسے کلچر کو فروغ دینے میں کوشاں رہے جس میں عزت نفس، قانون کی عمل داری اور سماجی انصاف کی سرے سے کوئی اہمیت نہیں تھی۔ پاکستان کا دارالحکومت بری، بحری اور فضائی ہیڈ کوارٹر اور زیادہ تر صنعتی ادارے مغربی پاکستان میں تھے جس میں پنجاب اور سندھ کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔ بساط ریاست پر بھی صوبے چھائے رہے اور ایک عرصے تک مشرقی پاکستان اور بلوچستان نظر انداز ہوتے گئے اور وفاق ان کے جمہوری حقوق پامال کرتا رہا۔ کم زور اور غیر منظم سیاسی اداروں کے باعث عسکری قیادت اور بیورو کریسی بار بار عنان حکومت سنبھالتے رہے اور سیاسی عمل رک جانے کے سبب پاکستان کے بڑے اور حساس علاقے قومی دھارے سے خارج ہوتے گئے۔ بھارت کی جارحانہ پالیسی نے پاکستان کے اندر ”مضبوط مرکز“ کا تصورگہرا کیا اور اسے ایک سیکورٹی اسٹیٹ بنا دیا جس میں مختلف قوانین کی حوصلہ افزائی ہوئی اور شہری آزادی اور عوامی حقوق نظام حکومت میں ایک بلند مقام حاصل نہ کرسکے جس کے نتیجے میں تحریکیں بھی اٹھیں اور سیاسی اتحاد بھی قائم ہوئے اور صوبوں کے اندر اپنے وسائل کی ملکیت کی تحریک زور پکڑتی گئی اور آئین کا دامن گاہے گاہے تار تار کیا جاتا رہا۔ ایک پاکستان کو اپنا وجود قائم رکھنے کا چیلنج درپیش تھا۔ دوسری طرف وہ مخلص اور تجربہ کار قیادت سے محروم ہوتا جارہا تھا۔ پنڈت نہرو کو اس امر کا یقین تھا کہ پاکستان اپنے آپ کو معاشی طور پر سنبھال نہیں سکے گا (خاکم بدہن) اپنے آپ کو بھارت کے حوالے کردے گا۔
مگر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور حب الوطنی کے عظیم جذبوں کی بہ دولت قوم نے شبانہ روز محنت اور اعلیٰ منصوبہ بندی کے ذریعے ایک سے ڈیڑھ کروڑ سے زائد مہاجرین کا بار بھی اٹھا لیا۔ یہ کارنامہ کسی طور پر ایک معجزے سے کم نہ تھا دراصل اس میں عوام کے تعاون اور ایثار نے کلیدی کردار ادا کیا اور ابتدائی دنوں میں سرکاری اعمال بھی حد درجہ فرض شناس، مستعد اور ایثار کش تھے انہوں نے عدم سے وجود کی طرف سفر شروع کیا۔ ہماری آزادی کے اتنے برسوں میں ناقابل یقین معجزے بھی ہوئے جس میں ایٹم بم بنانا سرفہرست اور اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام بھی لامحدود اور بے حساب رہے ہیں لیکن بعض ایسی خرابیاں در آئی ہیں جنہوں نے ہمارے حقیقی چہرے کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور شان دار مستقبل کے اندر شگاف ڈال دیے۔ ہماری قیادت نے بلاشبہ شروع کی انتہائی کٹھن آزمائشوں پر بڑی حد تک قابو پالیا تھا اور بھارتی لیڈروں کے عزائم ناکام بنا دیے تھے مگر غیر معمولی حالات اور ہمارے معاشرتی رویوں کے خوف ناک تضادات اور اختیار و اقتدار کے غیر جمہوری سانچے ہماری تاریخ پر گہرے اثرات چھوڑ گئے ہیں جو ہمیں ایک بھیانک انجام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان کی اصل قوت کا منبع اس کے عوام اور اسلام کے ہمہ گیر اور آفاقی تصورات اور اخلاقی تعلیمات تھیں، بدقسمتی سے انہی کے ارتقا اور استحکام پر کامل یک سوئی سے توجہ نہیں دی گئی قراردادِ مقاصد میں انہی دو نکات کو مرکز و محور کی حیثیت حاصل تھی اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہ طے پایا تھا کہ اقتدار جو ایک مقدس امانت ہے اسے عوام کے منتخب نمائندے خدا کی دی ہوئی حدود کے اندر استعمال کریں گے یہ ایک اسلامی اور جمہوری منشور تھا مگر اس پر سیاسی معاشرتی اور معاشی زندگی میں عمل درآمد نہیں ہوا۔
قومی سیاست اور معاشرت پر دولت مند اور رشوت خور طبقے حاوی ہوتے گئے ہر شخص دولت کا پجاری ہے اور امانت میں خیانت فن کا درجہ حاصل کرچکا ہے، روپے پیسوں کے معاملے میں اب آپ کسی پر اعتماد نہیں کر سکتے اور جن کے ہاتھ زمام کار ہیں اور جو قومی خزانے کے امین بنائے گئے ہیں وہ بے دھڑک قومی وسائل لوٹ رہے ہیں اور محکموں اور اداروں میں کروڑوں اور اربوں کے گھپلے آئے دن اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتے جا رہے ہیں لیکن اب ظلمت شب ڈھلنے لگی ہے اور سیاہ کاروں کے نامہ اعمال چاک ہورہے ہیں، آزاد میڈیا نے پورا معاشرتی اور سیاسی منظر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ اسمگلروں، مافیاز اور جی حضوریوں کے وہ تمام ہتھکنڈے سرِ بازار زیر بحث آ رہے ہیں جو غیر سیاسی اور غیر جمہوری طریقوں سے ایوان اقتدار میں سرنگ لگاتے رہتے ہیں، وہ طبقات جنہوں نے مفادات کی خاطر ایک ناپاک اتحاد کر رکھا تھا، اب وہ عوام کے غیظ و غضب سے لرزہ بہ اندام ہیں تطہیر کا عمل جاری ہے اور محروم طبقات اپنی تقدیر کے خود مالک بننا چاہتے ہیں ان کی آنکھوں میں نفرتوں کے جو انگارے سلگ رہے ہیں، انہیں اب جمہوریت کے آب حیات سے ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے اور ہمیں جو تبدیلی ذہنوں میں امڈتی نظر آرہی ہے وہ ان شاءاللہ ہمارے پیارے پاکستان میں سماجی انصاف، انسانی مساوات اور اخلاقی انقلاب کا پیام بر ثابت ہوگی۔

No comments:

Post a Comment

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان لاہور (نیوز اپ ڈیٹس) وزیر اطلاعات پن...