ہم یہاں تعزیت کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، فہمیدہ ریاض مری نہیں ہیں بلکہ ہم میں موجود ہیں، صدر آرٹس کونسل آف پاکستان محمد احمد شاہ
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) فہمیدہ ریاض مجاز حقیقت کا پل ہیں وہ سراپا مجاز تھیں ہم نے ان کو پڑھ کر لکھنا سیکھا اور ہم ان کے دور کے امین ہیں وہ اس دور میں ان حکم رانوں کے سامنے کلمہ گو ہوئیں جن کے سامنے حق کہنا جرم تھا آج کے اس دور کے پیچھے ان لوگوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے انکار کیا اور فہمیدہ ریاض ان میں سب سے الگ تھیں۔ ان خیالات کا اظہار وزیر ثقافت و تعلیم سندھ سردار علی شاہ نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی ایک تقریب میں کیا۔ فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت کی اس تقریب سے وزیر ثقافت و تعلیم سندھ سردار علی شاہ کے علاوہ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ، فہمیدہ ریاض کی بیٹی ویرتا علی ظفر، فہمیدہ ریاض کی بہن نجمہ منظور، فاطمہ حسن، عبدالمجید کانجو، ڈاکٹر سحر امداد، زاہدہ حنا، سحر انصاری، وسعت اللہ خان، عامر حسین، امداد حسینی اور مجاہد بریلوی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت پیش کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر ثقافت و تعلیم سندھ سردار علی شاہ نے اعلان کیا کہ وہ کراچی کے کسی کالج یا اسکول کو فہمیدہ ریاض کے نام سے منسوب کریں گے اس حوالے سے ان کے خاندان کے لوگ نشان دہی کریں کہ کون سا کالج ان کے نام سے منسوب کیا جائے۔ صدر آرٹس کونسل آف پاکستان محمد احمد شاہ نے کہا کہ ہم یہاں تعزیت کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے بلکہ ان کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں، فہمیدہ ریاض مری نہیں ہیں بلکہ ہم میں موجود ہیں اور اس وقت ہمیں دیکھ رہی ہوں گی جو لوگ تاریخ کے دھارے موڑنے کے لیے کوشش کرتے ہیں اور تاریخ کے دھارے موڑتے ہیں قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں وہ زندہ رہتے ہیں، فہمیدہ بھی ہم میں زندہ ہیں۔ فہمیدہ ریاض کی بیٹی ویرتا علی ظفر نے کہا کہ امی نے ساری زندگی جدوجہد کی اگر امی آپ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہیں، جس مقصد کے لیے انہوں نے زندگی گزاری وہ جاری و ساری رہا تو امی کی روح کو سکون ملے گا۔ فہمیدہ ریاض کی بہن نجمہ منظور نے مخمور اور درد سے بھری آواز میں ان کی لکھی ہوئی آخری نظم سنائی اور کہا کہ وہ باقی ساری دنیا کے لیے فہمیدہ ریاض تھیں میرے لیے وہ باجی تھیں۔
فاطمہ حسن نے فہمیدہ ریاض کی زندگی کے آخری چند سالوں پر ایک مقالہ پیش کیا اور کہا کہ وہ ایک بہادر خاتون تھیں جو نہ حکم رانوں سے ڈریں، نہ ہی سماج سے اور نہ ہی موت سے اور وہ زندگی کی آخری ہچکی تک مسکراتی رہیں۔ انہوں نے کہا کہ فہمیدہ ریاض نے ہمیشہ عورت، سماج، محبت اور اصول کی بات کی۔ عبدالمجید کانجو نے فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا ان کے شوہر سے تعلق تھا جس کی وجہ سے مجھے بھی ان سے ملنا نصیب ہوا جب میں ان کے خاندان سے ملا تو مجھے طمانیت اور اطمینان ملا، ان کا تعلق ایک مزاحمتی خون سے تھا، انہوں نے زندگی بھر مزاحمت کی اور آخر تک اس مزاحمت کو جاری و ساری رکھا۔ ڈاکٹر سحر امداد نے کہا کہ فہمیدہ اس دھرتی پر رہنا چاہتی تھیں لیکن ہمارے سماج نے ان کی قدر نہیں کی اور انہیں ادھر ٹکنے نہیں دیا۔ معروف مصنفہ اور ادیبہ زاہدہ حنا نے فہمیدہ ریاض کی زندگی کے چیدہ چیدہ بابوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں زندگی میں سب سے بڑا رنج اپنے جواں سال بیٹے کی موت پر ملا انہیں کبیر کی جدائی کا انتہائی دکھ تھا اور اس جدائی نے انہیں نڈھال کر دیا تھا ان کی آواز سدا قائم رہے گی۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ ایک بڑی شاعرہ کی حیثیت سے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ معروف صحافی وسعت اللہ خان نے اپنے مخصوص انداز میں فہمیدہ ریاض کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تقریب سے امداد حیسنی، عامر حسین اور مجاہد بریلیوی نے بھی خطاب کیا اور فہمیدہ ریاض کی زندگی کے کئی گوشوں پر روشنی ڈالی۔ تقریب کے اختتام پر آرٹس کونسل کی جانب سے فہمیدہ ریاض کے لیے ان کی بیٹی اور بہن کو پھولوں کے گل دستے بھی پیش کیے گئے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ایوب شیخ نے انجام دیے۔
No comments:
Post a Comment