Jurrat o Himmat K Paiker


٭٭٭٭٭٭٭
فرنٹیئر کور کا بلوچستان میں قابل فخر کردار
شاہد چوہدری

فرنٹیئرکور بلوچستان کو ہم بجا طور پر فخرِ بلوچستان کہہ سکتے ہیں کہ اس مایہ ناز ادارے نے ضلع ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے دوسرے محب وطن اداروں کے ساتھ مل کر داخلی خلفشار کوکافی حد تک کم کر کے نہ صرف یہاں امن قائم کیا ہے بلکہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے غریب اور سادہ لوح عوام کو اس طبقاتی چنگل سے آزادی دلا دی ہے جو اکیسویں صدی میں بھی عوام کوغلام بنا کر رکھے ہوئے تھا۔ اس نظام میں اچھی زندگی، عیش و عشرت، معیاری تعلیم اور اچھی صحت کی سہولتیں صرف اور صرف چند بڑے لوگوں اور ان کے گماشتوں تک محدود تھیں اور یہ مراعات انہوں نے غریب بلوچ عوام کے نام پر لی گئی رقوم سے کوئٹہ، کراچی، اندرون سندھ اور اسلام آباد میں اپنے لیے میسر کی ہوئی تھیں۔ اربوں روپے رائلٹی کی مد میں لے کر انہوں نے اپنے اور اپنی اولاد کے خزانے تو بھر دیے لیکن ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کھنڈرات کا نقشہ پیش کرتے رہے۔ 

غریب بلوچ عوام کو حکم تھا کہ وہ اسکول بھی نہیں جا سکتے تھے جب کہ ان کی اپنی اولاد آکسفورڈ اور دوسرے غیر ملکی اداروں میں تعلیم حاصل کرتی رہی۔ غریب بلوچ کو پکا گھر بنانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ خود اپنے لیے بڑے شہروں میں محل بنائے ہوئے تھے۔ غریب بلوچ بھیڑ بکریاں پالنے اور گیس کمپنی کی معمولی نوکری پر بھی ان جاگیرداروں، سرداروں اور نوابوں کو خراج (پھوڑی) دیتا تھا۔ ان چند بڑے لوگوں نے اپنے لیے لینڈ کروزر اور دوسری قیمتی گاڑیوں کے قافلے بنائے ہوئے تھے۔ غرض یہ کہ وہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے غریب بلوچوں کے بنیادی انسانی حقوق پوری طرح سلب کیے ہوئے تھے۔ یہ چند استحصالی کردار بلوچستان کے محب وطن سرداروں، نوابوں اور عوام کے لیے بھی ایک نامناسب شناخت تھے اور ہیں۔

اللہ کے فضل و کرم سے پاک آرمی نے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے عوام کو اس خوں آشام اور ذلت بھری رات کے چنگل سے کافی حد تک چھٹکارا دلا کر ایک روشن صبح کا آغاز کیا جس میں عام بلوچ کو حقیقی معنوں میں آزادی کا احساس ہوا اور دونوں اضلاع میں مؤروثی سیاست کے بجائے انتخابی سیاست کا آغاز ہوا۔ آج اللہ کے فضل سے بگٹی اور مری نوجوان آرمی آفیسرز اور انجینئر بن رہے ہیں۔ وہ اپنی مرضی سے اپنے حقوق کی بات کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی سر زمین پر آزادی سے جی رہے ہیں۔ آج کوئی بگٹی یا مری ضلع بدر نہیں ہوتا لیکن استحصالی سوچ اور ذہن رکھنے والے خاندانوں کے کچھ افراد کو عوام کی خوش حالی کا یہ سفر ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اس لیے وہ دن رات اپنے دہشت گرد کارندوں کے ذریعے بلوچستان کے مختلف علاقوں کے امن کے درپے ہیں۔
پاک آرمی اور فرنٹیئر کور بلوچستان آج بھی ان شر پسندوں سے نبرد آزما ہے جو پاکستان دشمن عناصر کے ایماء پر بگٹی و مری قوم کو دوبارہ اسی اندھیرے میں دھکیلنا چاہتے ہیں اور قومی اثاثے جو بلوچوں کی خوش حال زندگی کے ضامن ہیں، ان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ ان کے مذموم مقاصد کبھی پورے نہ ہوں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مطلوب حسین: شہید باپ کا شہید بیٹا
شادی کے لیے دو ماہ کی چھٹی منظور کرائی، گھر جانے کے قدم باہر نکالا ہی تھا کہ ایک اہم آپریشن کے احکامات آگئے۔ شہید نے رضا کارانہ چھٹی منسوخ کرائی اور آپریشن میں شامل ہو گیا
سلمان حسین
مطلوب حسین 1986ء میں چکوال کے ایک فوجی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم لانس نائیک نخرہ خان نے پاک فوج کی 19 پنجاب رجمنٹ میں عسکری خدمات انجام دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔ اپنے والد کی طرح مطلوب حسین کو بھی بچپن سے ہی فوج میں عسکری خدمات انجام دینے کا انتہائی شوق تھا اور اسی شوق کو پورا کرنے کے لیے میٹرک کے بعد ستمبر 2004ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور آرٹلری سینٹر اٹک میں ابتدائی عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد 19 اکتوبر 2005ء کو میڈیم رجمنٹ میں بہ طور اوسی یو پوسٹ ہوئے۔ مطلوب حسین اپنے حسن سلوک اور دلیری کی وجہ سے بہت جلد پوری یونٹ میں اپنا نام بنانے میں کام یاب ہو گئے۔

2006ء کے آغاز میں یونٹ کو آپریشن ’’کول مائن‘‘ کا موقع ملا تو یونٹ کے کم سروس سپاہیوں میں سے او سی یو مطلوب کا جذبہ دیدنی تھا۔ آپریشن ’’کول مائن‘‘ میں فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد جب یونٹ خیریت سے واپس پہنچی تو اوسی یو مطلوب حسین کو والدہ صاحبہ نے فون کر کے بتایا کہ بیٹا ستمبر میں تمہاری شادی ہے لہٰذا زیادہ چھٹی لے کر آنا۔ مگر مطلوب حسین کی والدہ کو کیا پتا تھا کہ مطلوب حسین تو اب کسی اور راستے کا مسافر ہے۔

یہ اگست 2006ء کی بات ہے جب او سی یو مطلوب حسین نے قریباً تین بجے اپنی تنخواہ لی اور اپنے حوالدار میجر سے چھٹی کے بارے میں بات کی تو حوالدار میجر نے مطلوب کو بتایا کہ آپ تیاری کرو میں بیٹری کمانڈر سے تمہاری لیو پاس سائن کروا کر آتا ہوں۔ مطلوب اپنے کپڑے اور ضروری سامان بیگ میں ڈال کر بیٹھا ہی تھا کہ حوالدار میجر کی طرف سے ملنے والے لیو پاس سے مطلوب حسین کی خوشی دوبالا ہو گئی کیوں کہ لیو پاس میں دو ماہ کی چھٹی لکھی تھی۔ مطلوب حسین نے گیٹ پر آؤٹ کروانے کے بعد ابھی پہلا ہی قدم یونٹ کے گیٹ سے باہر رکھا تھا کہ یونٹ کو ایک اہم حکم دیا گیا۔ او سی یو مطلوب حسین نے رجمنٹل پولیس سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو پتا چلا کہ یونٹ کو ’’سن رائز‘‘ آپریشن پر جانے کا حکم ملا ہے۔

یہ خبر سنتے ہی مطلوب حسین کو چھٹی بھول گئی اور اس نے رضا کارانہ طور پر آپریشن میں شمولیت کا اظہار کیا۔ بیٹری کمانڈر نے مطلوب حسین کی دلیری اور شجاعت کی داد دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا تم ابھی تو ایک آپریشن لڑ کر آئے ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ اگلے ماہ تمہاری شادی بھی ہے۔ شادی کے بعد آجانا۔ لیکن او سی یو مطلوب حسین کے دل میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے کا ایسا جذبہ تھا کہ اس جذبے کے سامنے ہر کوئی بے بس ہو گیا اور باوجود بار بار منع کرنے کے او سی یو مطلوب حسین کی ایک ہی ضد تھی کہ میرے ملک کی عزت مجھے شادی سے زیادہ عزیز ہے۔ لہٰذا مطلوب حسین نے اپنا لیو پاس حوالدار میجر کو واپس کیا اور بیگ میں سے کپڑے نکال کر وردی اور ضروری سامان رکھ کر آپریشن پر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔
17 اگست کی رات جب دہشت گردوں پر قابو پانے کے لیے میجر قیصر عباس کی سربراہی میں کانوائے نکلا تو میجر قیصر نے اپنی گاڑی میں سیٹ آپریٹر کے طور پر اوسی یو مطلوب کو منتخب کیا۔ کانوائے نے ابھی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ دہشت گردوں نے فائر کھول دیا۔ اس دوران او سی یو مطلوب حسین نے نہ صرف اپنی ریئر پارٹی سے کمیونی کیشن کر کے فائر منگوایا بلکہ اپنی گن سے دہشت گردوں کے فائر کا منہ توڑ جواب بھی دیتا رہا۔ او سی یو مطلوب نے اپنی زندگی کا یہ آخری معرکہ بڑی دلیری اور جاں فشانی سے لڑا۔ یہ جھڑپ طلوع آفتاب تک جاری رہی اور آخر کار مطلوب کی بروقت کمیونی کشن اور جوابی کارروائی سے یونٹ کو اس محاذ پر کافی بڑی کام یابی ملی۔
اس کام یاب آپریشن کے مکمل ہونے کے بعد ابھی کانوائے واپسی کی تیاریاں ہی کر رہا تھا کہ میجر قیصر کی گاڑی کا پچھلا ٹائر زمین میں چھپائی گئی آ ئی ای ڈی پر آ گیا۔ دھماکے کی وجہ سے گاڑی کا پچھلا حصہ جس میں او سی یو مطلوب حسین بھی بیٹھے تھے مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور اس کے نتیجے میں 17 اگست 2006ء کو او سی یو مطلوب حسین کو شہادت ملی اور انہیں 18 اگست 2006 کو چکوال کے قریب ان کے آبائی گاؤں میں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔ او سی یو مطلوب حسین کی شہادت کے بعد جب ان کی ماں سے پوچھا گیا کہ وہ مطلوب کے بارے میں کیا سوچتی ہیں؟ تو انہوں نے کچھ یوں جواب دیا۔ ’’مائیں جب اپنے بچوں کوفوج میں بھیجتی ہیں تو انہیں اسی لمحے اللہ کی سپردگی میں دے دیتی ہیں۔ ویسے تو ہم سب نے ایک نہ ایک دن اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہوتا ہے لیکن جس شان سے ایک سپاہی اپنے ملک و قوم کی بقاء کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے وہ شان ہی نرالی ہوتی ہے اور اس شان پر نہ صرف مجھے بلکہ پوری قوم کو فخر ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیپٹن یحییٰ شہید کی داستان جرات
محمد امجد چوہدری

کیپٹن یحییٰ شہید کے والد محترم فرید علی سعودی عرب میں نوکری کر رہے تھے۔ شادی کے بعد اللہ نے ان کوایک بیٹی عطا کی اور پھر اس کے کئی سال بعد تک آنگن میں کسی قلقاری کی گونج نہیں ابھری تو انہوں نے سعودی عرب میں اپنی مسجد کے امام سے کہا کہ اللہ سے خصوصی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے مزید اولاد سے بھی نوازے تو امام مسجد نے انہیں ایک خصوصی وظیفہ بتانے کے ساتھ دعا بھی کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جلد خوش خبری ملے گی۔ قریباً چھ سال بعد اللہ نے انہیں دوسری خوشی دی اور ان کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کے کرم پر ان کے والد نے امام مسجد کو خوش خبری سنائی اور نام بھی انہیں ہی تجویز کرنے کی درخواست کی تو امام مسجد نے کہا کہ جب حضرت زکریاؑ کو اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا تو ان کا نام بھی اللہ تعالیٰ نے خود تجویز کیا اور انہیں بشارت ہوئی کہ بیٹے کا نام یحییٰ رکھنا، اس لیے میں بھی تمہارے اس بچے کا نام یحییٰ تجویز کرتا ہوں اور اس طرح یحییٰ صمد اپنی جڑواں بہن مریم کے ساتھ اپنی ماں کی گود میں کھیلنے لگا۔ اس کی معصوم اور گہری آنکھیں ماں کے ساتھ ساتھ اپنے سے بڑی بہن نویدہ کو بھی ڈھونڈتی رہتیں۔ ماں باپ کو تو جو خوشیاں ملیں سو ملیں مگر بہن کو ایک گڈا مل گیا۔ یحییٰ کے ساتھ کھیلنے کے لیے ان کا پورا خاندان جمع ہو جاتا۔ جب اس نے قدم لینا شروع کیے تو والدین کو ایسے لگا جیسے وہ اس سر زمین پہ چلنے والا شہزادہ ہو۔ یوں کیپٹن یحییٰ شہید بڑے ناز و نعم میں پلا۔ اس کی ہلکی سی تکلیف بھی پورے گھرانے کو غم گین کر دیا کرتی تھی۔ کیپٹن یحییٰ نہ صرف ہونہار طالب علم تھے بلکہ اپنے دوستوں اور استادوں میں اپنے اخلاق اور مزاح کی وجہ سے بہت پسند کیے جاتے تھے۔


جب کیپٹن یحییٰ نے میٹرک کیا تھا تو والد نے چاہا کہ کیڈٹ کالج بھجوا دیا جائے مگر والدہ نے اپنی محبت سے مجبور ہو کر انکار کر دیا تھا مگر جب قدرت کے کارخانے میں ان کے جسم پر وردی پہنائے جانے کا بگل بجا تو وہی لاڈلا گڈا جس کا چہرہ دیکھے بنا ماں کو نیند نہ آتی تھی اور سوتے میں بہن جب تک ماتھا نہ چوم لیتی تو کمرے میں روشنی نہ بجھاتی تھی، کچھ نہ کر سکے اور حیران ہو گئے جب کیپٹن یحییٰ صمد نے بتایا کہ وہ تو ISSB کے لیے سلیکٹ ہو گیا ہے۔ ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی کیوں کہ وہ اور ان کا تمام گھرانہ افواجِ پاکستان کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ وردی سے اور ان وردی والوں کے عظیم جذبے سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔

اب کیپٹن یحییٰ کے لیے زندگی کا راستہ اور بھی آسان ہو گیا تھا۔ 16 مئی 2008ء کو اپنے وطن کا یہ سپوت بہت سے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنے نکل پڑا اور اس کا پہلا پڑاؤ کشمیر میں تھا۔ کچھ عرصے بعد وہ سیالکوٹ آ گئے۔ کشمیر کی خوب صورت وادیوں میں کیپٹن یحییٰ اللہ کی قدرت اور اس کی کاری گری دیکھتے تو گھنٹوں گھر والوں کو اس کے بارے میں بتاتے۔ پھر چھ سات ماہ سیالکوٹ رہنے کے بعد وہ جنوبی وزیرستان (لدھا) چلے گئے۔ کیپٹن یحییٰ میں دوسرے فوجی افسروں کی طرح فوجی معاملات گھر میں بحث مباحثے میں لانے کی عادت نہ تھی۔ اس لیے وہ کبھی موسم، وقت یا حالات کی سختیوں کا تذکرہ نہ کرتے۔ جب کیپٹن یحییٰ گھر آتے تو پورے گھرانے میں ایک زندگی کی رونق نظر آنے لگتی۔ جب کبھی بہت بھوک لگتی تو بلند آواز میں کہتے: اوئے ظالمو! مجھے بھوک لگی ہے اور تم سب خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہو اور پھر والدہ اور بہنوں کے ساتھ باورچی خانے میں مدد کرنے لگ جاتے۔ اس طرح کیپٹن یحییٰ شہید کی معصوم اور محبت سے بھرپور ادائیں سب کے دلوں کو بہت اچھی لگتیں۔ وہ گھر کے لیے قمقموں کی ایسی لڑی تھے کہ ہر وقت روشنی کرتے اور پھولوں کی ایسی باڑ کہ ان کے جانے کے بعد بھی گھر والوں کے دل ان کی خوشبو سے معطر رہتے۔ والدہ کے قدموں میں بیٹھ کر پاؤں دباتے اور کہتے آج تو آپ سے جنت لے کے جاؤں گا اور ماں اگر مذاق میں کہتیں: ہائے میرا پاؤں آہستہ پکڑو تو کہتے اماں جنت نکال رہا ہوں آرام سے تو نہیں نکلے گی ناں۔ وزیرستان کے کیا حالات تھے؟ گھر والوں کو خبر نہ تھی مگر وہاں رہنے کے بعد کیپٹن یحییٰ کی شخصیت میں سب سے بڑا فرق یہ آیا کہ جہاں اذان ہوتی سارے معاملات چھوڑ کر نماز پڑھتے۔ وہ تہجد گزار ہو چکے تھے۔ گھر چھٹی پر آتے تو رات کو اٹھ کر خاموشی سے جائے نماز لے کر ڈرائنگ روم میں آ جاتے اور ان کی بڑی بہن نویدہ نے انہیں راتوں کو سجدے میں اللہ کے حضور روتے ہوئے سنا اور دیکھا مگر کبھی ان سے پوچھنے کی ہمت نہ کی کہ یحییٰ تم اللہ سے گڑ گڑا کے کیا مانگتے ہو؟ نویدہ کا کہنا تھا کہ یہ یحییٰ اور اللہ کا معاملہ تھا۔ یحییٰ شہید کی شہادت کے بعد گھر والوں کو ایک ڈائری ملی جس میں اپنی وصیت لکھ کے گئے تھے ۔۔۔ انہوں نے لکھا تھا:
’’میرا سوگ تین دن سے زیادہ نہ منانا۔ اگر میں زندہ نہ آیا تو میری ماں کو عمرہ ضرور کرانا۔ میری میت کے پاس کھڑے ہو کر (اگر کسی کو مجھ سے کبھی کوئی اذیت پہنچی ہو تو) سب مجھے معاف کر دیں۔‘‘ کیپٹن یحییٰ کی منگنی ہو چکی تھی۔ اپنی منگیتر فاطمہ کے لیے بھی انہوں نے ایک وصیت لکھی تھی: ’’اگر میں زندہ نہ رہا تو فاطمہ شادی ضرور کرے اور اگر وہ میرے نکاح میں آ چکی ہو اور میں نہ رہوں تو بھی وہ دوسری شادی ضرور کرے۔‘‘ ان کی وصیت سے لگتا تھا کہ جیسے وہ زندگی کی حقیقتوں سے مکمل طور پر آشنا تھے اور بعد کی زندگی کے مسائل پر بھی نگاہ رکھتے تھے۔ شہادت سے چند دن پہلے انہوں نے اپنی بہن کو شہادت پر بنائی ہوئی ایک مووی دکھائی تو بہن رونے لگی۔ اس کا سر پیار سے اپنے کندھے سے لگا کر کہنے لگے: پگلی میرے لیے دعا مانگو تو شہادت کی مانگنا کہ اس کا بہت بڑا درجہ ہے اور یہ بڑی سعادت کی حامل ہے اور اگر میری شہادت کی خبر ملے تو وضو کر کے دو نفل شکرانے کے ضرور ادا کرنا۔ بہن نویدہ کی عادت تھی کہ اگر دن میں ایک بار وزیرستان سے یحییٰ کا فون نہ آتا تو فون ضرور کرتیں۔ ایک بار انہیں کہنے لگے: آپی آپ کی ان فون کالز نے میرا نام Baby Soldier رکھوا دیا ہے۔
beton k jism pey1 ہر افسر کی طرح اپنے جوانوں سے پیار کرتے اور کوئی شہید ہو جاتا تو والدین کے ساتھ اس کے گھر تعزیت کے لیے جاتے۔ جنوری کی صبح وزیرستان میں برف پڑ رہی تھی تو کیپٹن یحییٰ کا فون آگیا ۔۔۔ بہن نے پوچھا: آج میرے گڈے نے کیسے صبح صبح یاد کر لیا، تمہارا وقت تو شام کا ہے۔ تو کہنے لگے آج برف باری ہو رہی ہے۔ فون بھی ٹھیک اور فارغ تھا تو میں نے سوچا اتنا پیارا موسم، میں اپنی آپی کو اپنی آنکھوں سے دکھاؤں ۔۔۔ تو آپی نویدہ کو یحییٰ پر بہت پیار آیا اور کہنے لگیں کہ تم مووی بنا لو میں ضرور دیکھوں گی ۔۔۔ پھر یحییٰ نے بتایا کہ آج ہم نے مچھلی بنوائی ہے، خوب موسم کا مزہ لوٹیں گے ۔۔۔ اس دن کیپٹن یحییٰ کی آواز میں بہت خوشی اور سکون تھا۔ پھر کہنے لگے: بس آپی آٹھ دس دن تک یونٹ موو کر رہی ہے پھر میں سیالکوٹ آجاؤں گا۔ یہ آخری بات تھی جو یحییٰ نے اپنی آپی سے کہی ۔۔۔ رات کو ٹی وی پر خبر چلنے لگی کہ جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں اور فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور فوجی اہل کار شدید زخمی ہوئے ۔۔۔ نویدہ نے اپنے خاوند سے پوچھا کہ یحییٰ کہاں ہے؟ جنوبی وزیرستان یا شمالی تو انہوں نے فوری طور پر بتایا کہ شمالی وزیرستان میں تو نویدہ دعائیں کرتی ہوئی سو گئیں۔ ان کے دل کو دھڑکا سا لگ گیا کہ نہیں شاید وہ جنوبی وزیرستان ہی میں ہے۔ پھر دل کو تسلی دیتیں کہ نہیں نہیں اللہ سب خیر کرے گا ۔۔۔ اور پھر صبح ایک فون کال آئی ۔۔۔ ماں نے آواز دی، بیٹا فون اٹھاؤ، میرے یحییٰ کی کل مجھ سے بات نہیں ہوئی تھی ناں اس لیے اس نے ہی صبح صبح دعائیں لینے کے لیے فون کیا ہو گا ۔۔۔ مگر قبولیت کا وقت تو دامن چھڑا کے جا چکا تھا ۔۔۔ وہ کال تھی تو کیپٹن یحییٰ شہید کے نام کی مگر یحییٰ کی نہیں تھی۔ لمحہ بھی نہ گزرا توکیپٹن یحییٰ شہید کے والد دھاڑیں مار کے رونے لگے۔ دل کے مریض تھے۔ منتوں سے مانگا ہوا بیٹا تھا۔ ابھی تو وردی میں انہوں نے اپنے جوان کو دل بھر کے دیکھا بھی نہ تھا اور ماں نے تو سہرا سجانے کی تیاری کر رکھی تھی۔ بہنیں اور بھائی اس کے جانے کے بعد سے ہی اس کے آنے کے منتظر ہوا کرتے تھے ۔۔۔ آج بھی اسی آس میں تھے کہ بس آٹھ دس دن کے بعد وہ لوٹ آئے گا مگر وہاں تو شہادت اور جنازے کی باتیں گونجنے لگیں۔ 8 جنوری کو پوسٹ پر حملہ ہوا تو ان کے مقابلے کے لیے یحییٰ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھے۔ کچھ دہشت گرد مارے گئے تو یحییٰ نے اگلی پوسٹ کے افسر کو پیغام دیا کہ کچھ ابھی وادی میں چھپے ہیں۔ ادھر سے میں نکلتا ہوں۔ ادھر سے آپ آگے بڑھیں اور پھر جب یہ نکلے تو اسی وادی کے جانور نما دہشت گردوں نے فائر کھول دیا۔ کیپٹن یحییٰ اپنے ساتھیوں کے ساتھ فائر اینڈ موو (Fire & Move) کرتے آگے بڑھے۔ جلد ہی وہ چند دہشت گردوں کے عقب میں جا پہنچے۔ کیپٹن یحییٰ نے تاک تاک کر نشانے لگانے شروع کیے۔ کچھ ہی لمحے میں چند دہشت گرد جہنم واصل ہو گئے اور باقیوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ کیپٹن یحییٰ کے ساتھیوں نے جب کمانڈر کی یہ بہادری اور مہارت دیکھی تو بھاگتے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ اسی طرح مقابلہ کرتے کرتے فوج کے یہ بہادر جوان دشمن کو پیچھے دھکیلتے گئے تاہم چند دشمن موقع کی تاک میں تھے۔ جونہی کیپٹن یحییٰ ان کے نشانے کی زد میں آئے تو انہوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ سینے پہ برسٹ لگا اور کئی گولیاں جسم کے پار ہو گئیں۔ اللہ اکبر کا نعرہ گونجا اور کیپٹن یحییٰ شہید ہو گئے۔ تاہم شہادت سے پہلے وہ اپنا مشن مکمل کر چکے تھے۔ دہشت گردوں کا حملہ ناکام ہو چکا تھا۔ گھر والوں نے بڑے فخر سے اس لاڈلے گڈے کا استقبال کیا۔ بہن نے وصیت کے مطابق وضو کر کے بلکتے ہوئے دو نفل شکرانے کے ادا کیے۔ سوگ بھی تین دن ہی منایا مگر اب اس گھر میں ہنسی کی آواز اس طرح سے سنائی نہیں دیتی۔ سارے کردار موجود ہیں مگر کیپٹن یحییٰ شہید کی کمی ان کے دلوں کا روگ بن گئی ہے۔ مگر آفرین ہے اس بہن پر اور والدین پر جو آج بھی کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کے جسموں پہ وردیاں سجتی رہیں گی اور شہادت کی دْعائیں بھی مانگی جاتی رہیں گی کہ زندگی ہے تو صرف وطن اور اسلام کے لیے اور فوج سے بہترین فریضہ عشق کوئی ادا نہیں کر سکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سپاہی ایاز انور ہاشمی: شہادت ۔۔۔عظیم اعزاز
فرحین چوہدری
ہو سکتا ہے اظہر ہاشمی کو میرے علاوہ بھی کئی لوگ جانتے ہوں، مگر بہت سارے نہیں جانتے، شاید اس لیے کہ وہ ایک سفید پوش معذور انسان ہے، وہ کسی پوش علاقے کے بڑے سے بنگلے کے بجائے کرائے کے دو کمروں کے مکان میں اپنی بیمار بیوی اور بچے کے لیے حلال رزق کما رہے ہیں۔
اظہر ہاشمی کون ہے اور کیوں ہے؟ یہ تو بعد میں ذکر ہو گا اس وقت تو مجھے 22 سالہ ایاز انور ہاشمی کی بہادری کی داستان بیان کرنا ہے جو مجھے اظہر نے سنائی تھی کیوں کہ اظہر اور ایاز آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں ۔۔۔ میں اسلام آباد کی مہنگی اور ماڈرن ترین مارکیٹ میں کھڑی تھی ۔۔۔ لمبی لمبی کاروں میں مرے وطن کے سپوت، اونچا اونچا میوزک لگائے، قہقہے لگاتے خوش و خُرم ہزاروں کی شاپنگ کرتے پھر رہے تھے۔ ہر جانب امن و شانتی تھی (اللہ قائم رکھے) مسکراہٹیں تھیں، سکون تھا، یہ بھی مرے وطن کی ماؤں کے لال تھے ۔۔۔ اللہ سلامت رکھے ۔۔۔ آمین۔
اور ایسے میں اُن سب کی سلامتی کے لیے اپنی جان قربان کرنے والے سپاہی ایاز انور ہاشمی مجھے یاد آ گئے۔ 32 بلوچ رجمنٹ کا وہ سپاہی جن کے والد صوبیدار محمد انور ہاشمی اور ماموں صوبیدار (ر) محمد شاکر نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں مادرِ وطن کی سرحدوں کی حفاظت کی۔ اور دو سال دشمن کی قید میں صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کی زندگی کے بہترین سال قید و بندمیں گزرے مگر انہوں نے وطن کے دشمنوں کا ساتھ نہیں دیا۔
ایاز ہاشمی نے بھی اپنے والد کی بلوچ رجمنٹ میں بھرتی کا ارادہ کیا اور سپاہی کے فرائض انجام دینے لگے، ایاز دوستوں، ساتھیوں اور ملنے جلنے والوں سے اکثر شہیدوں کی باتیں کرتے تھے، انہیں جام شہادت کا بے حد شوق تھا، کسی کی شہادت کی خبر سُنتے تو ہاتھ اُٹھا دیتے: ’’اللہ پاک یہ سعادت مجھے بھی نصیب کر‘‘ اور یہ دعا کرتے ہوئے ان کی آنکھوں کی چمک دیکھی نہیں جاتی تھی۔ عمر کے اکیسویں سال میں ہی ان کی شادی ہو گئی اور انہیں دنوں ایاز کی ڈیوٹی وزیرستان میں لگا دی گئی، جہاں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے ہزاروں فوجی افسران، جوان اور عوام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں تاکہ وطن عزیز میں آباد، گھر، اسکول، بازار، مسجدیں اور عبادت گاہیں محفوظ رہ سکیں۔ بم پھٹنے سے ماؤں کے کلیجے نہ پھٹیں، سہاگنوں کے سہاگ نہ اُجڑیں کسی ظالم کی فائرنگ سے۔
نئی نویلی دلہن صاعقہ نے ہزاروں اندیشوں اور دعاؤں کی چھاؤں میں اپنے سہاگ کو رُخصت کیا۔ فوجی باپ نے کمر ٹھونک کر چھاتی سے لگایا ۔۔۔ بیٹا یہ مَٹی ہماری ماں ہے، اس کی لاج رکھنی ہے ہر حال میں۔
دہشت گردوں کے ساتھ جاری طویل جنگ کے دوران کوئی نہ کوئی ایسی خبر ملتی ہے جو کسی نہ کسی سپاہی یا افسر کے گھر پرچم میں لپٹے کسی شہید کے تابوت یا کسی زخمی سے جُڑی ہوتی ہے لیکن شاید اپنے جگر گوشوں کو، اپنے سہاگ کو، اپنے بھائیوں کو محاذ پر بھیجنے والوں کے دل بھی کچھ نرالے ہوتے ہیں، ان کے سینوں میں کچھ ایسے چراغ جل رہے ہوتے ہیں، جن کا وجود پوری دھرتی کو روشن رکھتا ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی ایاز ہاشمی کی ۔۔۔ گھر کا چکر بھی لگتا تھا ۔۔۔ فون پر بھی خیر خبر معلوم ہوتی رہتی ۔۔۔ مگر ٹی وی کی اسکرین پر دکھائے جانے والے مناظر کئی بار مضطرب بھی کر دیتے۔
ایاز کو دو ہفتے کی چُھٹی ملی کہ ان تھک فرائض کی انجام دہی کے دوران کچھ آرام مل جائے، گھر والوں سے میل ملاقات کے علاوہ ۔۔۔ نئی ڈیوٹی کے لیے تازہ دم بھی ہو جایا جائے ۔۔۔ گھر آئے، ہفتہ گزارا، گھر کے سارے رکے ہوئے کام کروائے، گھر کی کچھ مرمت کروانی تھی، وہ کروائی اور بار بار صاعقہ سے کہتے: ’’اگر میں شہید ہو گیا تو رونا مت، میرا جسم تم سے جُدا ہو گا مگرروح نہیں کیوں کہ شہید مرتے نہیں۔‘‘
’’تمام رشتے داروں سے فرداً فرداً ملے، جیسے کسی لمبے سفر پر جا رہے ہوں، جانے کیوں میرا دل کوئی مسلتا تھا ۔۔۔ مگر ایاز کی خوشی کی خاطر میں اظہار نہیں کرتی تھی۔‘‘
صاعقہ نے بڑے فخر سے سر اونچا کیا اور کہنے لگیں: ’’مجھے سب کہتے ہیں دوسری شادی کر لو۔ ابھی زندگی کا لمبا سفر باقی ہے، مجھے بتائیں میں کیسے کرلوں شادی؟ ایاز تو زندہ ہیں، ہر لمحہ ہر سانس میرے ساتھ، وہ شہید ہوئے ہیں، شہید کب مرتے ہیں؟ اور میں بیوہ تو نہیں میرے ماتھے پر تو ایاز نے وہ جھومر سجا دیا ہے جس پر ہزاروں ہیروں کے جھومر قربان، میں تو ازلی و ابدی سہاگن ہوں، ایک شہید کی بیوہ نہیں سہاگن ہوں جو اعزاز مجھے میرے ایاز نے بخشا ہے وہ تو زندگی کی معراج ہے۔‘‘
صاعقہ کے ان الفاظ کے سامنے کوئی دلیل کوئی تاویل کیا کرے؟
بلوچ رجمنٹ کے صوبیدار (ر) محمد انور ہاشمی، ایاز کو سپرد خاک کرنے کے بعد بوڑھے کانپتے ہونٹوں کے ساتھ اپنے سپوت کا کارنامہ سملگہ (کہوٹہ) میں گاؤں والوں کو، رشتے داروں کو فخر سے سُنا رہے تھے ۔
’’جانتے ہو میرے ایاز نے میجر واصف کی کمان میں دہشت گردوں کا گھنٹوں کا مقابلہ کیا۔ ان جہنمیوں کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ میجر واصف اور تین ساتھی شہید ہونے بعد بھی میرا سپاہی ۔۔۔ میرا ایاز ۔۔۔ (فقرے ٹوٹنے لگے) ۔۔۔ آدھا گھنٹہ تن تنہا 250 شیطان ظالموں سے لڑتا رہا ۔۔۔ آخر انہوں نے راکٹوں کی بارش کر دی۔‘‘
بوڑھی آنکھیں نم ضرور تھیں مگر خود شہادت کی آرزو رکھنے والے صوبیدار محمد انور ہاشمی کو یہ فخر تھا کہ ان کا بیٹا بازی لے گیا۔ 
یااللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ ان کے دل کسی نور سے بنے ہیں، جو اسی وطن میں بسنے والے جانے انجانے لوگوں کی جان، مال اور عزت کے لیے اپنا لہو بہا دیتے ہیں؟ یہ تو فرشتوں سے بھی ارفع مخلوق ہیں۔ 
تبھی کہا گیا ہے:
’’فرشتے سے بہتر ہے، انسان ہونا 
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ‘‘
16 نومبر 2014ء کو شہادت کا رُتبہ پانے والے ایاز ہاشمی کی عمر فقط 22 برس تھی ۔۔۔ خوابوں کی، سرابوں کی عمر!
ابھی تو ان کے سہرے کے پھول بھی نہیں سوکھے تھے ۔۔۔ ابھی تو اس نے اپنا گھر پورا کرنا تھا، ابھی تو دادا دادی کی گود میں پوتے نے بھی کھیلنا تھا ۔۔۔ سارے خواب ادھورے ہی رہ گئے ۔۔۔ صاعقہ ایاز سے شہادت کی خبر میت گھر پہنچنے تک چھپائی گئی تھی۔
جواں سال شہید سپاہی کی میت فخر سے وصول کرنے والے صوبیدار انورہاشمی ۔۔۔ اس کے چالیسویں کے دن بیٹے سے جا ملے۔ ایک باپ ایک بیٹے سے چالیس دن کی جدائی برداشت نہ کر پایا، دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا، کتنا بھی کوئی آہنی اعصاب کا مالک ہو، انسان تو انسان ہی ہوتا ہے، جب کوکھ اجڑ جائے، جب بوڑھا باپ جوان بیٹے کے جنازے کو کاندھا دیتا ہے تو ۔۔۔ اندر کہیں دل کی رگیں ٹوٹنے پر لہو میں آگ لگنے پر کچھ تو ٹوٹتا ہے، کچھ تو جلتا ہے۔
اور وہ ماں اور وہ بیوی جس نے چالیس دن کے اندر اندر بیٹے کی شہادت اور شوہر کی جدائی کا زخم سہا، اس کی کی خالی گود اور سونی کلائیاں بھی خاموش زباں سے کچھ نہ کچھ تو کہتی ہوں گی۔
قربانیاں دینے والے، جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے اس خاندان کو کیا کسی سیاست دان، کسی انسانی حقوق کی تنظیم یا حکومت نے کوئی اعزاز بخشا؟
مگر شہیدوں کے ورثاء کو فخر ہے کہ مطمئن ضمیر اور شہادت سے بڑا اور اعزاز کیا ہو گا؟
میرے پاس کوئی جواب نہیں ۔۔۔ آپ کے پاس ہے کوئی جواب ؟؟
********************
عالم زندہ رہے گا ۔۔۔ جب تک ہے یہ عالم 
ایم ایم عالم جنہوں نے چند لمحوں میں دشمن کے پانچ ہنٹر طیاروں کو مار گرا کر
عالمی ریکارڈ قائم کر دیا
تحریر: محمد امجد چوہدری
وہ قوم کبھی بھی ناکام نہیں ہو سکتی جو اپنے ماضی سے تعلق نہیں توڑتی۔ اپنے شہداء، مجاہدوں، غازیوں اور ہیروز کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرتی کیوں کہ ان کے کارنامے اور کام یابیاں نوجوان نسل کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں۔ کسی بھی قوم کا شان دار ماضی صرف ہیروز اور شہداء کے قابلِ فخر کارناموں کا مرہونِ منت نہیں ہوتا بلکہ اس میں ان ہزاروں گم نام شہیدوں، غازیوں اور جاں نثاروں کی جدوجہد اور قربانیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو اپنے مقصد کے حصول اور قوم کے مستقبل کے لیے آگ اور خون کا دریا عبور کرتے ہیں۔
 مجھے بھی آج ایسے ہی ہیرو کی یاد لکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ دنیا کی ایوی ایشن ہال آف فیم سے متعلق کوئی بھی جریدہ ہو پاک فضائیہ کی کوئی بھی کام یابی ہو، ایئر کموڈور (ریٹائرڈ) محمد محمود عالم کے ذکر کے بغیر نا مکمل رہے گی۔ پاک فضائیہ کے اس ہیرو کو جنہیں دنیا ایم ایم عالم کے نام سے جانتی ہے، وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص، محب وطن پاکستانی، جری فائٹر پائلٹ تھے اور وہ نہ صرف پاک فضائیہ کے ایئرمینوں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ اور قابلِ تقلید ماڈل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایم ایم عالم جن کی عرفیت Little Dragon تھی، 6 جولائی 1935ء کو کلکتہ جو اس وقت برطانوی انڈیا کا حصہ تھا، کے ایک تعلیم یافتہ خاندان میں پیدا ہوئے۔ عالم پانچ بھائیوں اور چھ بہنوں میں سب سے بڑے تھے۔ کسی بھی نوجوان پاکستانی کی طرح جو پاکستان کی مسلح افواج میں شمولیت اختیار کرتا ہے، بچپن ہی سے شہادت مطلوب و مقصود تھی۔ آپ کو اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے ایک موقع نظر آیا۔ آپ نے ’’شاہین ایئر اسکاؤٹس‘‘ میں شمولیت اختیار کی۔ ایک تصور جسے رائل پاک فضائیہ کے آنجہانی سربراہ ایئر وائس مارشل Atcherly نے 1950ء میں روشناس کرایا تھا۔ شاہین ائر سکاؤٹس کا مقصد نوجوان طلباء کے جذبوں کو رائل پاکستان ایئر فورس میں شمولیت کے لیے بیدار کرنا تھا۔1951ء میں پاکستان فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ 2 اکتوبر 1953ء کو پاک فضائیہ میں کمیشن دے دیا گیا۔
954ء میں پائلٹ آفیسر ایم ایم عالم نے نمبر19 اسکواڈرن میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے بعد نمبر14 اسکواڈرن میں پاک فضائیہ میں دستیاب طیاروں پر اڑانیں بھریں۔ آج یہ اسکواڈرن اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ایم ایم عالم ان کا حصہ رہے۔ 1965ء کی پا ک بھارت جنگ میں اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم سرگودھا میں نمبر11 اسکواڈرن کو کمانڈ کر رہے تھے۔ آپ 6 ستمبر 1965ء کو پہلی بار بھارتی فضا میں اس وقت گرجے جب آپ بھارتی فضائی مستقر آدم پور پر حملہ آور ہوئے۔ یہ بھارتی سرحد سے98 میل اور سرگودھا ایئر بیس سے249 میل کے فاصلے پر ہے۔ ایم ایم عالم کے تاج میں دمکتا ہوا ہیرا 7 ستمبر 1965ء کو بھارتی فضائیہ کے پانچ ہنٹر طیاروں کو چند لمحوں میں گرانا ہے جو ورلڈ ریکارڈ ہے۔ آپ کی شان دار خدمات پر آپ کو ستارہ جرأت سے نوازا گیا۔ یقیناً وہ عالم کا دن تھا۔ آپ نے پانچ طیارے 60 سیکنڈز سے بھی کم وقفے سے اپنی گنز سے مار گرائے۔ جب کہ پہلے چار طیارے گرانے میں آپ کو 30 سیکنڈ بھی نہیں لگے۔ آپ کا یہ کارنامہ آج بھی ورلڈ ریکارڈ ہے۔ اس کارنامے کو انجام دینا ہر Topgun کا خواب ہے۔
ایم ایم عالم کی بھارتی فضائیہ کے ساتھ جھڑپ کی چشم دید گواہی دیتے ہوئے آپ کے 1965ء کے کامریڈز نے کہا: ’’ہمیں ایم ایم عالم کے ہاتھوں ایک نئی تاریخ رقم ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پرسکون، لگن اور جذبے سے بھرپور عالم نے دشمن کو ناقابلِ فراموش سبق سکھایا۔‘‘ 7 ستمبرکو مادرِ وطن کے دفاع کے لیے اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے اپنے ونگ میں فلائٹ لیفٹیننٹ مسعود اختر کے ساتھ F۔86 سیبر طیارے میں پرواز کی اور سرگودھا کی شمال مشرقی جانب فضائی نگرانی کا آغاز کیا۔
 F۔8 طیاروں کا دوسرا جوڑا فلائٹ لیفٹیننٹ بھٹی کی زیرِ قیادت مزید مشرقی جانب فضائی نگرانی کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ ریڈار پر انہوں نے دشمن کے چار طیارے دیکھے جو شمال مشرقی سمت میں محوِ پرواز تھے۔ ایم ایم عالم نے سیبر طیارے پر اپنی مکمل مہارت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور بھارتی طیاروں کے پاکستانی فضاؤں میں گھس آنے پر انہوں نے سبق دینے کی خاطر انتہائی دائیں جانب سے حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران آپ کو ایک پانچواں طیارہ نظر آگیا۔ آپ نے فوراً اپنا ذہن بدلا اور نئے شکار پر حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا۔ عالم کے طیارے کی 6 گنز کو فائرنگ کرنے میں بمشکل چند سیکنڈ لگے ہوں گے اور دشمن کا ہنٹر طیارہ آگ کے گولے میں بدل چکا تھا۔ عالم نے اپنی گنز کا رخ دوسرے ہنٹر کی جانب گرتے ہوئے فائر کھول دیا۔ اگلے ہی لمحے عالم باقی دو طیاروں کو مار گرانے کے لیے پوزیشن میں آچکے تھے۔ چند ہی لمحوں میں باقی ماندہ طیارے بھی جلتے ہوئے کباڑ میں تبدیل ہوتے ہوئے زمین پر گِر گئے۔ ایم ایم عالم جیسا قومی ہیرو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جو انہیں ہمت، استقامت، حب الوطنی اور قربانی کی راہ دکھاتے ہیں اور ان کی زندگی اور کام یابیوں پر بہ طورِ قوم ہمیشہ فخر رہے گا۔
طویل علالت کے بعد 18 مارچ 2013ء کو77 سال کی عمر میں وہ ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کی نمازِ جنازہ میںPAF بیس مسرور میں ادا کی گئی جہاں انہوں نے اپنی سروس کا پہلا سال گزارا تھا۔ فلائنگ ایس (Ace) ایم ایم عالم کے نام پر لاہور ایم ایم عالم روڈ ہے۔ ان کے انتقال کے بعد میانوالی ایئر بیس کا نام بھی تبدیل کرکے ایم ایم عالم ایئر بیس رکھا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
میرا آج میرے وطن کے کل پر قربان!
ببرم بٹالین کے سپوتوں کی لازوال قربانی
تحریر:محمد رمضان سیال
سپاہی عبدالرحمن شہید تمغۂ بسالت:
عبدالرحمن 1986ء میں اولیائے اکرام کے شہر ملتان کے قریب سنت بودلہ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم ا حمد علی کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ عبدالرحمن نے میٹرک تک تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد پاک آرمی کی آرمڈ کور میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدائی عسکری تربیت مکمل کرنے کے بعد آرمرڈ کور کی ایک مایہ ناز یونٹ میں پوسٹ ہوئے لیکن ان کو شروع ہی سے اسپیشل سروسز گروپ میں آنے کا بڑا شوق تھا لہٰذا اپنے آپ کو اس کی ٹریننگ کے لیے والنٹےئر کیا۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اپنی انتھک محنت سے بہترین پوزیشن میں ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد کمانڈو ببرم بٹالین میں پوسٹ ہوئے۔ سال 2010ء کے اوائل میں ببرم بٹالین کو آپریشن شیر دل کے لیے باجوڑ ایجنسی مامور کیا گیا۔ کیوں کہ اس کی خوازہ سر چوٹی دہشت گردوں کا مضبوط گڑھ تھی۔
ببرم بٹالین نے جب اپنا مشن شروع کیا تو سپاہی عبدالرحمن شہید کی کمبیٹ ٹیم ٹارگٹ کے دائیں طرف مغربی سمت سے آگے بڑھ رہی تھی۔ ابتداء ہی سے اس ٹیم کے اوپر دہشت گردوں نے بھاری فائر کھول دیا مگر ٹیم حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی اور سپاہی عبدالرحمن لگا تار دشمن کے فائر کا جواب دیتے رہے۔ اس دوران سپاہی عبدالرحمن نے دشمن کی طرف ایک دستی بم پھینکا جو ان کے درمیان گرا جس سے وہ تتر بتر ہو گئے۔ سپاہی عبدالرحمن نے ایک اور دستی بم پھینکا جس کی وجہ سے ان کا کافی نقصان ہوا جب دہشت گردوں نے بھاگنا شروع کیا تو سپاہی عبدالرحمن نے باہر آ کر ان پر فائر شروع کر دیا۔ اچانک ایک گولی سپاہی عبدالرحمن شہید کے چہرے پر لگی اور 27 جنوری 2010ء کو موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے۔ اپنی شہادت سے پہلے انہوں نے دشمن کو ان کی جگہ سے بھگا دیا تھا جس کی وجہ سے آپریشن کے آگے بڑھنے میں مدد ملی۔ حکومت پاکستان نے سپاہی عبدالرحمن کے اعلیٰ مثالی جذبے، ہمت، جوش، بہادری اور بے مثال قربانی پر ان کو تمغۂ بسالت سے نوازا۔ اﷲ تعالیٰ نے سپاہی عبدالرحمن شہید کی شہادت کے قریباً 6 ماہ بعد پس ماندگان کو بیٹے جیسی اعلیٰ نعمت سے بھی نوازا جس کا نام ہیبت خان رکھا گیا۔ شہید کی بیوہ سعد یہ اقبال کی یہ دلی خواہش ہے کہ اپنے ہیبت خان کو ملک و قوم کی اعلیٰ خدمات کے لیے پاک آرمی میں بھجوائے اور جاں باز مجاہد بنائے۔

***

سپاہی مشتاق حسین شہید تمغہ بسالت:

سپاہی مشتاق حسین 1986ء میں صوبہ سندھ کے ضلع خیر پور کے گاؤں گمبٹ کے ایک کاشت کار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم جان محمد اپنے آباء و اجداد کی طرح دھرتی کے سینے کو چیر کر اپنی روزی کماتے تھے لیکن ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے پاک فوج میں شامل ہو کر ملک و قوم کی خدمت کریں۔ میٹرک تک تعلیم کے بعد سپاہی مشتاق حسین نے بھی اپنے والد کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے بڑے بھائی کے نقش قدم پر چلنے کا ارادہ کیا جو پہلے ہی پاک فوج کی سگنل کور میں تھے۔ آرٹلری سینٹر اٹک میں ابتدائی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد MBRL رجمنٹ میں پوسٹ ہوئے۔ سپاہی مشتاق حسین شہید ایس ایس جی کے لیے منتخب ہوئے۔ اپنی انتھک محنت اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ایک جاں باز کی حیثیت سے کمانڈو ببرم بٹالین ایس ایس جی میں پوسٹ ہوئے۔ 


2010ء کے ابتدائی دنوں میں دہشت گردوں کے خلاف باجوڑ ایجنسی میں آپریشن شیر دل کے لیے ببرم بٹالین کو نام زد کیا گیا۔ ببرم بٹالین کے اس مشن کے دوران سپاہی مشتاق حسین ایک کمبیٹ ٹیم میں اسالٹ ممبر کے طور پر کام کر رہے تھے۔ جیسے ہی آپریشن کی کارروائی شروع ہوئی تو دہشت گردوں کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی۔ اس دوران دہشت گردوں نے بھاری نفری کے ساتھ فورس پر حملہ کیا جس میں حوالدار برکت شدید زخمی ہو گئے اور سپاہی مشتاق حسین نے ذخیرہ ٹیم کا ممبر ہونے کے باوجود پہل کرتے ہوئے مشکل حا لات میں اپنے زخمی ساتھی کو دہشت گردوں کی فائرنگ کی زد سے بچانے کے لیے جرأت کا مظاہرہ کیا اور ان کو محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ سپاہی مشتاق حسین شہید اپنے ایک جاں باز ساتھی کے لیے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے شدیدفائر کے اندر اس جگہ پہنچے جہاں ان کا ساتھی زخمی پڑا تھا اور زخمی ساتھی کو محفوظ جگہ پر پہنچا دیا اس دوران وہ خود دہشت گردوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے اور زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے جام شہادت نوش کر گئے مگر انہوں نے اپنے ساتھی کو بچا لیا۔ حکومت پاکستان نے سپاہی مشتاق حسین شہید کی بے مثال، بے لوث قربانی اور جرأت کے صلے میں تمغۂ بسالت سے نوازا۔
***
سپاہی وسیم طاہر شہید تمغہ بسالت:
سپاہی وسیم طاہر ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد کے گاؤں سکندر آباد میں پیدا ہوئے۔ مٹیرک تک تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والدین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں ٹر نینگ مکمل کی اور ان کو ایک پنجاب رجمنٹ میں پوسٹ کیا گیا۔ چوں کہ ان کی خواہش تھی کی وہ اسپیشل سروسز گروپ کے جاں باز بنیں گے لہٰذا انہوں نے سلیکشن ٹیم کے آنے پر اپنے آپ کو پیش کیا تو ان کا انتخاب ہو گیا۔ ٹرنینگ مکمل کرنے کے بعد ان کو کمانڈو بٹالین میں پوسٹ کیا گیا۔ سال 2008ء میں جب کمانڈو ببرم بٹالین کے لیے تمام ایس ایس جی کی یونٹوں سے جاں بازوں کی ضرورت پڑی تو سپاہی وسیم طاہر کو اس یونٹ میں پوسٹ کر دیا گیا۔

 2010ء کے ابتدائی دنوں میں کمانڈو ببرم بٹالین کو آپریشن شیر دل کے لیے باجوڑ ایجنسی جانے کا حکم ملا تو حقیقی جاں بازوں کی طرح سپاہی وسیم طاہر بھی سب سے آگے آگے تھے۔ ببرم بٹالین کو خوازہ سر چوٹی پر قبضہ کرنے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کر نے کا ٹاسک ملا جو محل وقوع کی وجہ سے ان کی اہم پناہ گاہ اور اہمیت کی حامل تھی۔ اس پر دشمن نے بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ شروع کر دی۔ سپاہی وسیم طاہر جو ببرم بٹالین کے شیر دل جاں باز اور کپیٹن ذیشاں حیدر کی ٹیم کے اسالٹ ممبر تھے۔ دہشت گردوں کی پوزیشن کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے قریباً 700 میٹر فاصلہ طے کرنے کے بعد ٹیم دہشت گردوں کے بڑے ہتھیاروں کی زد میں آگئی۔ اس اثناء میں دشمن کی طرف سے جوابی حملہ ہوا جس میں سپاہی وسیم طاہرکو دستی بم کے شیل لگے لیکن اس شیر دل جاں باز نے واپس جانے سے انکار کر دیا۔ ان کے بلند حوصلے کو دیکھتے ہوئے اس ٹیم نے دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا اور ان کو مضبوط غاروں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ سپاہی وسیم طاہر دہشت گردوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے آگے بڑھے جس کی بدولت ان کی ٹیم اگلی نئی اور محفوظ جگہ پر بآسانی پہنچ گئی۔ سپاہی وسیم طاہر دہشت گردوں پر فائر کر رہے تھے کہ اسی اثناء میں دہشت گردوں کے چھپے ہوئے اسنائپر نے ان کے سر کا نشانہ لیا جس کی وجہ سے انہوں نے جام شہادت نوش کیا لیکن اس سے پہلے وہ اپنی ٹیم کو ایسی جگہ پر پہنچا چکے تھے جہاں سے اگلے ٹارگٹ پر پہنچنے میں آسانی پیدا ہو گئی۔ حکومت پاکستان نے ان کی بے لوث خدمت، ہمت، ولولہ انگیزی، جاں بازی اور بہادری کے صلے میں ان کو تمغۂ بسالت سے نوازا۔
***
حوالدار روشن علی شہید تمغۂ بسالت: 

حوالدار روشن علی ضلع جھنگ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد رانا محمد یامین کاشت کاری کرتے تھے۔ حوالدار روشن علی نے میٹرک کا امتحان اپنے گاؤں کے مقامی اسکول سے پاس کیا۔ چوں کہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا پاک فوج میں شمولیت اختیار کرکے ملک و قوم کی خدمت کرے لہٰذا حوالدار روشن علی نے پاک فوج کی آزاد کشمیر رجمنٹ میں شمولیت اختیار کی۔ ابتدائی ٹریننگ مانسر کیمپ میں مکمل کی اور آزاد کشمیر رجمنٹ میں پوسٹ ہوئے چوں کہ شہید کو بچپن سے ہی اسپیشل سروسز گروپ میں جاں باز کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت کا شوق تھا۔ لہٰذا انہوں نے ایس ایس جی میں آنے کی درخواست دی اور اس کی منظوری کے بعد اپنی انتھک محنت اور اللہ تعالیٰ کے فضل کرم سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعدکمانڈو بٹالین میں پوسٹ ہوئے۔


09 نومبر 2004ء کو کمانڈو بٹالین میں پوسٹ ہوئے اور وہاں پر انتہائی جاں فشانی سے چار سال گزارنے پر ان کی اعلیٰ کارکردگی پر اقوام متحدہ کی امن فوج میں بھیج دیا گیا۔ وہاں بھی حوالدار روشن علی نے اپنے ملک و قوم کا نام روشن کرتے ہوئے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور واپسی پر حوالدار روشن علی کو کمانڈو ببرم بٹالین میں پوسٹ کر دیا گیا۔ ببرم بٹالین نے اپنی چھوٹی سی عمر میں آپریشن کے ہر میدان میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سال 2010ء کے جنوری اور فروری میں باجوڑ ایجنسی کے شیر دل آپریشن کی کام یابی کے بعد ببرم بٹالین کو اورکزئی ایجنسی میں دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے روانہ ہونے کا حکم ملا۔ ببرم بٹالین کو مقامی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر کے زیر اطاعت کر دیا گیا۔ حوالدار روشن علی 23 اپریل 2010ء سے آپریشن راہ نجات میں برسر پیکار تھے۔ بٹالین کو روڈ کلایا۔ غلجو، شینہ نکا کے ساتھ ساتھ تمام اہم چوٹیاں (جو دہشت گردوں کے قبضے میں تھیں) کلیئر کرنے کا حکم ملا۔ چھ ہفتے کی انتھک محنت اور جاں فشانی کے ساتھ یونٹ نے نہ صرف تمام چوٹیوں کو دہشت گردوں سے صاف کیا بلکہ مین سپلائی روڈ کو کھولا۔ اس تمام مرحلے میں یونٹ کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حوالدار روشن علی تمام آپریشن میں اپنی کمبیٹ ٹیم میں پیش پیش رہے۔ مین سپلائی روڈ کو کھولنے کے لیے پوائنٹ2098 چوٹی (یخ کنڈاؤ) پر فورسز کی پوسٹ بنانا ضروری تھا۔

یہ آخری جگہ تھی جہاں پر اورکزئی ایجنسی میں دہشت گرد قابض تھے۔ یخ کنڈاؤ کے دہشت گردوں سے پاک ہونے کا مطلب تھا اورکزئی ایجنسی سے دہشت گردوں کا صفایا۔ حوالدار روشن کو اس آپریشن سے پہلے ایڈمنسٹریشن کے کام کے لیے واپس بھجوانے کا حکم دیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں مشکل وقت میں پلٹن کو نہیں چھوڑ سکتا۔ یخ کنڈاؤ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے حوالدار روشن شہید کی کمبیٹ ٹیم سب سے آگے تھی اور وہ خود اپنی ٹیم میں سب سے آگے۔
حوالدار وشن علی پوری فورس کے لیے گائیڈ کا کام کر رہے تھے اور شدید اندھیری رات میں انتہائی مشکل علاقے میں دشمن کی طرف پیش قدمی کرنا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے۔ وہ آگے بڑھ رہے تھے کہ ان کا پاؤں دہشت گردوں کی پھیلائی ہوئی بارودی سرنگ پر آ گیا جو ایک دھماکے سے پھٹ گئی اور انہیں شہادت سے ہم کنار کر گئی۔ حوالدار روشن علی شہید نے جان دے کر اورکزئی ایجنسی سے دہشت گردوں کے آخری ٹھکانے کو بھی کلےئر کیا اور ملک و قوم، خاندان اور پلٹن کی عزت رکھی۔ روشن شہید کی آپریشن میں جواں مردی، حوصلہ، خندہ پیشانی، فرض شناسی اور بہادری کی وجہ سے حکومت پاکستان نے ان کو ’’تمغۂ بسالت‘‘ سے نوازا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آرمی اسکول آف ٹیکنیشنز باڑیاں کیمپ

میجر خلیل احمد


کوہ مری (ملکہ کوہسار) سے 13کلومیٹر شمال میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کے سنگم مری ایوبیہ ایبٹ آباد روڈ پر 7500 فٹ کی بلندی پر آرمی اسکول آف ٹیکنیشنز باڑیاں کا خوب صورت کیمپ واقع ہے۔ یہ کیمپ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ موسم گرما میں یہاں کا موسم نہایت ہی خوش گوار ہوتا ہے۔ جو موسم سرما میں برف باری اور یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے انتہائی سرد ہو جاتا ہے اور طالب علموں کے لیے ٹریننگ قدرے مشکل ہو جاتی ہے۔ کیمپ کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو اپرباڑیاں اورلوئر باڑیاں کہلاتا ہے۔ ٹریننگ اور دفاتر کا علاقہ اپر باڑیاں میں ہے جو صوبہ پنجاب میں واقع ہے جب کہ زیر تربیت ریکروٹوں کی رہائش لوئر باڑیاں میں ہے جو صوبہ خیبر پختون خوا کا حصہ ہے۔

انیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے دوران انگریز برصغیر پاک و ہند کے مختلف حصوں میں جنگی مہمات میں مصروف تھے۔ انہیں آرام کے لیے اپنے ملک سے ملتے جلتے موسم اور علاقوں کی ضرورت تھی۔ جس کے پیش نظر انہوں نے مری کے کچھ علاقے (اپرٹوپہ، لوئر ٹوپہ، گھڑیال، باڑیاں، کلڈنہ، خیرہ گلی، چھانگلہ گلی، ڈونگا گلی، گھوڑا گلی، خانسپور اور کالاباغ) کے مقامات خرید کر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ اس پروگرام کے تحت باڑیاں کیمپ 1901ء میں تعمیر کیا گیا۔ اس لحاظ سے اس کیمپ کی تاریخ ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ جسے مندرجہ ذیل دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

تقسیم سے قبل:

برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے باڑیاں کیمپ کو انگریزی فوج کی مختلف یونٹوں کے لیے موسم گرما (اپریل تا ستمبر) کے لیے ریلیف کیمپ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ اور موسم سرما کے دوران صرف چند ضروری ڈیوٹی اسٹاف ہی کیمپ میں رہتا تھا۔ اس عرصے کے دوران متعدد انگریزی فوجی یونٹوں نے اس میں قیام کیا جس میں لوئر باڑیاں برٹش انفنٹری کیمپ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اپرباڑیاں میں رائل گیریژن آرٹلری قیام پذیر تھی۔ اس کے علاوہ اس کیمپ میں ایک گارڈ روم، ایک اسکول، ایک پوسٹ آفس، ایک پولوگراؤنڈ، ایک پریڈ گراؤنڈ، دو آفیسرز میس، ایک رجمنٹل بازار اور ایک میول اصطبل موجود تھا۔ 

قیام پاکستان کے بعد:

قیام پاکستان کے بعد باڑیاں کو فوجی چھاؤنی کے طور پر برقرار رکھا گیا۔ قیام پاکستان سے 1977ء تک کے عرصے کے دوران باڑیاں کیمپ، ملٹری ہسپتال (ٹی بی) وارڈ سے لے کر مختلف مراحل سے گزرتا رہا اور یہاں 1975ء میں 5 انجینئر کی کمپنی کوجگہ دے دی گئی جب کہ آرمی اسکول آف ٹیکنیشنز 1978ء میں راولپنڈی سے باڑیاں منتقل کیا گیا اور تاحال اسی مقام پر قائم ہے۔

آرمی اسکول آف ٹیکنیشنز کا قیام اور باڑیاں کیمپ منتقلی:

یہ ادارہ آرمی اپرینٹسز اسکول کے نام سے 1956ء میں SEATO معاہدے کے تحت راولپنڈی میں موجود آرمی میڈیکل کالج کی عمارت میں قائم ہوا۔ اسکول کا افتتاح اس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے خود کیا اور اپنی تقریر کے بعد اسکول کی ذمے داریاں (Charter of Duties) اسکول کے پہلے کمانڈنٹ لیفٹیننٹ کرنل ایف جی پنٹو کے حوالے کیں۔ اس کا بنیادی مقصد کورز آف انجینئرز، سگنلز اور ای ایم ای کے ٹیکنیشنز کو تربیت دینا تھا۔ شروع میں مڈل پاس 250 ریکروٹس کی انٹری کے لیے ساڑھے تین سال کا کورس رکھا گیا پھر 1965ء میں میٹرک انٹری کے ساتھ 435 ریکروٹس کے ساتھ 64 ہفتوں کا کورس کر دیا گیا۔ 1967ء میں کور آف انجینئرز کے ریکروٹس کی تربیت ان کے سینٹر رسالپور میں منتقل ہو گئی۔ تاہم سگنلز اور ای ایم ای کے سگنلز ٹیکنیشنز کی تربیت ابھی جاری ہے۔

اسکول کی باڑیاں منتقلی:

1978ء میں یہ اسکول راولپنڈی سے باڑیاں منتقل ہو گیا۔ 1981ء میں اسکول کا نام تبدیل کر کے آرمی اسکول آف الیکٹرانکس ٹیکنیشنز رکھا گیا۔ جو 1984ء میں تبدیل کر کے آرمی اسکول آف ٹیکنیشنز کر دیا گیا۔ 1998ء میں میٹرک انٹری کے ساتھ کورس کا دورانیہ 44 ہفتے کر دیا گیا اور ریکروٹس کی تعداد بڑھا کر 600-700 تک کر دی گئی۔ 1997-2003ء تک کچھ عرصے کے لیے سگنل کور کے نان کمیشنڈ آفیسرز (ٹیکنیشنز) کے لیے اپ کلاسیفکیشن ٹریننگ ٹو ۔ون 12 ہفتے دورانیے کے چند کورسز بھی اس ادارے میں کرائے گئے۔ پھر یہ کورس دوبارہ سگنل ٹریننگ سینٹر کوہاٹ منتقل کر دیا گیا۔ اس وقت پاک فوج میں یہی ایک ادارہ ہے جو الیکٹرانک ٹیکنیشنز کو تربیت مہیا کرتا ہے۔ اس اسکول کی شان دار روایات اور اعلیٰ معیار کو قائم رکھتے ہوئے پچھلے 54 سالوں میں زمانہ امن اور جنگ کے دوران پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کے لیے اب تک 24071 ٹیکنیشنز کو تربیت دی جا چکی ہے جن میں سگنلز کور کے لیے 15797، ای ایم ای کور کے لیے 7225 اور انجینئرز اور سول آرمڈ فورسز کے لیے 867 ٹیکنیشنز شامل ہیں۔ پوسٹ ریٹائرمنٹ ملازمت کے پیش نظر یہ ادارہ پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (PBTE) لاہور کے ساتھ منسلک ہے اور اب اس ادارے سے ٹریننگ مکمل کرنے والے ٹیکنیشنز کو پنجاب بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (PBTE) کی جانب سے ایک سال کا جنرل الیکٹرانکس ٹیکنیشنز کا سرٹیفکیٹ دیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ آرمی اسکول آف ٹیکنیشنز نے 2010ء میں ISO9001:2008 کی Certification حاصل کی ہے۔ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسکول میں غیر نصابی سرگرمیوں کا بھی بڑے اہتمام سے انعقاد کیا جاتا ہے۔ 44 ہفتوں کی ٹریننگ کے اختتام پر شان دار پریڈ / پاسنگ آؤٹ پریڈ منعقد کی جاتی ہے جس میں نصابی اور غیر نصابی میدان میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ٹیکنیشنز کو انعامات سے نوازا جاتا ہے۔

باڑیاں کیمپ کی تاریخ واضح کرتی ہے کہ یہ تاریخ کے بے شمار نشیب و فراز سے گزرتا ہوا پاک آرمی کے لیے ایسی فورس فراہم کر رہا ہے جو آرمی میں موجود الیکٹرانک ہتھیاروں اور ساز و سامان کو استعمال کرنے، برقرار رکھنے اور مرمت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ یہ اسکول اپنی ساری توانائیاں فنی مہارت سے مالامال افرادی قوت کو پیدا کرنے میں لگا رہا ہے۔ جن کے کندھوں پر ہائی ٹیک ساز و سامان کی مرمت اور صحیح حالت میں رکھنے کی ذمے داری ڈالی جا سکے۔ مزید یہ کہ مختلف قسم کے الیکٹرانکس ساز و سامان کو چلانے اور مرمت کے لیے قابل اور ماہر فورس کی تیاری کے مقصد کے پیش نظر یہ اسکول ٹریننگ کے معیار کو مزید بہتر بنانے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان لاہور (نیوز اپ ڈیٹس) وزیر اطلاعات پن...