پاکستان کی واٹر اینڈ پاور ڈویلمپنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی جانب سے صوبہ خیبر پختونخوا میں دریائے سوات پر مجوزہ مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے وزیراعظم پاکستان کے ایک مشیر کے بیٹے کی کمپنی کو ملنے والا ٹھیکہ سیاسی بحث کا موضوع بن گیا ہے جس میں میڈیا اور حزب اختلاف حکومت پر قانون اور اخلاقی ضابطوں کی خلاف ورزی کے الزامات لگا رہے ہیں۔
اس تعمیراتی ٹھیکے پر تنازع کی بنیادی وجہ اس ٹھیکے کا ایسے کنسورشیم کو ملنا ہے جس میں وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے تجارت و انڈسٹری عبدالرزاق داؤد کے بیٹے کی کمپنی ڈیسکون شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر دو کمپنیوں میں چائنا گیزوبا اور وائتھ ہائیڈرو شامل ہیں۔اسی ٹینڈر کے لیے ایف ڈبلیو او نے دیگر دو غیرملکی کمپنیوں کے ساتھ ملکربولی جمع کروائی تھی جسے تکنیکی بنیادوں پر مسترد کر دیا گیا۔
مہمند ڈیم کا منصوبہ ہے کیا؟
مہمند ڈیم خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والی قبائلی ایجنسی مہمند میں دریائے سوات پر تعمیر کیا جائے گا۔ مہمند ڈیم پروجیکٹ پر تعمیراتی کام کا آغاز جنوری کے دوسرے ہفتے میں ہو جائے گا۔ کنٹریکٹ حاصل کرنے والے مذکورہ جوائنٹ وینچر کے ساتھ تکنیکی مذاکرات جاری ہیں۔ ان تعمیراتی کاموں میں جیوٹیک بورنگ، زلزلہ پیما اور موسمیاتی سٹیشنوں کا قیام اور کیمپ سائٹ کی تیاری شامل ہیں۔ ان کاموں کے آغاز کا مقصد جنوری سے مئی کے دوران دریا میں پانی کے کم بہاؤ سے فائدہ اٹھانا ہے۔
اس ڈیم کی کل تخمینہ لاگت 309 ارب روپے ہے۔ اس میں 12 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہو گی جبکہ اس سے آٹھ سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔ حکومت کی جانب سے مہمند ڈیم کی تعمیرو تکیمل کی مدت کا ہدف پانچ سال آٹھ ماہ رکھا گیا ہے۔
ڈیسکون کو ملنے والے ٹھیکے پر اعتراضات
حزب اختلاف کے رہنماؤں اور بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق مہمند ڈیم کی تعمیرکے لیے دیے جانےوالے ٹینڈر پر پبلک پروکیورمنٹ کے قواعد و ضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا اور گیزوبا چائنا اور ڈیسکون کو واحد بولی لگانے والے کی حثیت سے ایوارڈ کر دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ 309 ارب کے اس میگاپروجیکٹ پر سنگل بڈر کو ٹھیکہ دے دینا غلط ہے۔
تاہم حکومتی وزرا نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ اس کنٹریکٹ کو دینے میں میرٹ کی خلاف ورزی نہیں کی گئی اور یہ کنٹریکٹ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے جاری کیا گیا ہے۔
چیئرمین واپڈ کا بھی وضاحتی بیان میں کہنا تھا کہ چائنا گیزوبا اور ڈیسکون کو میرٹ پر ٹھیکہ دیا گیا ہے جبکہ ایف ڈبلیو او اور چاٗئنا پاور کو تکنیکی معیار پر پورا نہ اترنے ہر یہ کنٹریکٹ نہ مل سکا۔ ابتدائی مرحلے میں 23 فرموں نے منصوبے کے لیے دلچسپی دکھائی اور جون 2018 میں دو جواٗنٹ وینچرز نے ٹینڈر درخواست جمع کروائی۔
مقامی میڈیا اور سیاسی جماعتوں نے حکومت پرالزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کنٹریکٹ عبدالرزاق داود کے بیٹے کی کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے دیا گیا ہے اور اس کنٹریکٹ سے عبدالرزاق داؤد کے مفادات کا تصادم ہے، انھیں بطور مشیر وزیر اعظم برائے تجارت اور بانی ڈیسکون کی حثیت سے یہ کنٹریکٹ نہیں ملنا چاہیے تھا۔
کیا ٹھیکہ دیتے وقت کسی قانون کی خلاف ورزی ہوئی؟
پنجاب حکومت کے پروکیورمنٹ ایڈوائز برائے محمکہ زراعت اور پیپرا قوانین کے ماہرشیخ افضال رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مہمند ڈیم کے کنٹریکٹ کو دینے میں پپپرا قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی گئی، اس کنٹریکٹ کو انٹرنیشل کمپیٹی ٹیٹیو بڈ (آئی سی بی) کے تحت ایوارڈ کیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپرا رولز میں اگر کوئی کمپنی یا کنسورشیم معیار پر پورا اترتے ہوئے سنگل بڈر کے طور پر سامنے آئے تو ری ٹینڈرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
مہمند ڈیم کی تعمیر کا کنٹریکٹ حاصل کرنےوالے کمپنی چائنا گیزوبا کا کنٹریکٹ میں حصہ 70 فیصد جبکہ ڈیسکون کا حصہ 30 فیصد ہے۔
وزارت خزانہ کے سابق فنانشل ایڈوائزر ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کنٹریکٹ میں پیپرا قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہوئی لیکن اس کنٹریکٹ کے ساتھ سیاسی محرکات کی وجہ سے بہتر ہوتا کہ 309 ارب کے میگا پروجیکٹ کی شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے سنگل بڈر سامنے آنے پر اخلاقی جواز پر ری ٹینڈرنگ کروا دی جاتی یا متعلقہ حکام معاملے پر تفصیلی بریفنگ دیتے تاکہ معاملہ اچھالا نہ جاتا۔
یاد رہے کہ مہمند ڈیم کی تعمیر کا کنٹریکٹ نومبر 2017 میں مشتہر کیا گیا اور جون 2018 کو اس کے حوالے سے درخواستیں موصول کی گئیں اور جولائی 2018 کو یہ کنٹریکٹ چینی کمپنی چائنا گیزوبا اور ڈیسکون کے جوائنٹ وینچر کو ایوارڈ کر دیا گیا۔
کیا ڈیسکون کو ٹھیکہ دینا مفادات کا ٹکراؤ ہے؟
مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ڈیم کے ٹھیکے کو وزیراعظم کی کابینہ کے رکن کے بیٹے کو دیے جانے پر اقربا پروری کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں اور حزب اختلاف کے رہنما یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا حکومت میں شامل شخصیت کے قریبی رشتہ دار کو اتنا بڑا ٹھیکہ دینا اقربا پروری اور مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے؟
یہ اعتراضات اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جب موجودہ حکومت اور ماضی کی حزب اختلاف انہی اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کو بہت اہمیت دیتی رہی ہے۔ وزیرا عظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے سیاست اور کاروبار کو ایک ساتھ کرنے پر اسی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنا تے رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ایل این جی منصوبے پر بھی ایسے ہی اعتراضات اٹھائے تھے۔ (بہ شکریہ: بی بی سی/اردو/پاکستان)
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46747163
بہت اچھی سائیٹ بنائی ہے آپ نے اس کا آوٹ کل بہت باکمال ہے۔
ReplyDelete