کیا نیب میں نا اہل لوگ بیٹھے ہیں، دو دو سال انکوائریز سے کچھ برآمد نہیں ہوتا، جسٹس احمد علی ایم شیخ
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی ایم شیخ نے ریمارکس دیے ہیں کہ نیب کے خلاف تو خود تحقیقات کی ضرورت ہے، دو دو سال انکوائریز سے کچھ برآمد نہیں ہوتا اور اگر یہی کارکردگی ہے تو ڈی جی نیب کو طلب کر لیتے ہیں۔ جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ میں کرپشن سے متعلق مختلف انکوائریز میں ملزمان کی ضمانتوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران عدالت کو مطمئن نہ کرنے پر چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ نیب حکام پر شدید برہم ہوئے اور ریمارکس دیے کہ نیب نامعلوم شکایت پر لوگوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے، نیب کے تفتیشی افسران کو بنیادی قانون کے بارے میں معلوم نہیں، انہیں6 ماہ کے لیے جیل بھیج دیں تو پورا قانون جان جائیں گے، اگر آئندہ سماعت پر ریکارڈ نہ لائے تو جیل بھیج دیں گے، یہ سراسر لوگوں کو ہراساں کرنے کا معاملہ ہے، کیا نیب میں نا اہل لوگ بیٹھے ہیں، دو دو سال انکوائریز سے کچھ برآمد نہیں ہوتا، اگر یہی کارکردگی ہے تو ڈی جی نیب کو طلب کر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ احمد علی ایم شیخ نے استفسارکیا کہ راﺅ انوار بری کیسے ہوگئے؟ جس پر راﺅ انوار کے وکیل نے کہا کہ راﺅ انوار بری نہیں ہوئے ضمانت پر ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ راﺅ انوار کا پاسپورٹ ضبط کرلیں، جب تک ٹرائل مکمل نہیں ہوتا راﺅ انوار پاکستان ہی میں رہیں گے۔ راﺅ انوار کے وکیل نے کہا کہ راﺅ انوارکا خاندان بیرون ملک ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ راﺅ انوارکی فیملی کو بھی پاکستان بلا لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کے خلاف تو خود تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ فائل پڑھ کرآئیں ورنہ آپ کو بھی آنے کی ضرورت نہیں۔
No comments:
Post a Comment