چھ سو (600) گز کے پلاٹ پر13 منزلہ عمارتیں بنانا کہاں کا انصاف ہے، عدالت میں پیشی کے موقع پر گفتگو
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر عبدالرﺅف صدیقی نے کہا ہے کہ آج کل سیاست میں عزت بچانا مشکل ہو گیا ہے، 600 گز کے پلاٹ پر13 منزلہ عمارتیں بنانا کہاں کا انصاف ہے۔ جمعرات کوکراچی میں عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما نے کہا کہ آج کل سیاست میں عزت بچانا مشکل ہوگیا ہے، ابھی عدالت نے اسمال انڈسٹریز میں بھرتیوں سے متعلق بلایا تھا، اس کے بعد دہشت گردی عدالت میں سانحہ بلدیہ میں حاضری لگانے جانا ہے، سب کو مشورہ دوں گا کہ قانونی جنگ کو قانونی طور پر لڑنا چاہیے، جتنی بھی عدم برداشت ہوگی انتشار پھیلے گا۔ رﺅف صدیقی نے کہا کہ600 گز کے پلاٹ پر13 منزلہ عمارتیں بنانا کہاں کا انصاف ہے، اگر معمولی نوعیت کا بھی زلزلہ آیا تو شہر میں لوگوں کی جانوں کا نقصان ہوگا، اچھے کاموں کو اچھے انداز میں ہونا چاہیے، تجاوزات نے شہر کی خوب صورتی ختم کردی ہے، لوگوں کو بڑے آرام سے تجاوزات کا خاتمہ کر کے متبادل جگہ دی جا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ اور ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹ کی تیکنیکی مہارت کی مدد سے ایجنڈا2030 ءاور17 ایس ڈی جی حاصل کرنے کے لیے صوبے میں بنیادی تبدیلیاں لا رہے ہیں اور خواہش مند ہیں کہ اس کے ثمرات سے مقامی آبادی بہرہ مند ہو، بلاول بھٹو زرداری کی یو این ڈی پی کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد سے بات چیت
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم نے سندھ میں کئی ترقیاتی منصوبوں کی تیاری کی ہے، اقوام متحدہ اور ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹ کی تیکنیکی مہارت کی مدد سے ایجنڈا2030 ءاور17 ایس ڈی جی حاصل کرنے کے لیے صوبے میں بنیادی تبدیلیاں لا رہے ہیں اور خواہش مند ہیں کہ اس کے ثمرات سے مقامی آبادی بہرہ مند ہو۔ وہ گزشتہ روز یو این ڈی پی کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد سے بات چیت کر رہے تھے، جس نے ان سے ملاقات کی اور متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سنیٹر قرة العین مری، اگناسیو ارتضیٰ اور شکیل احمد بھی موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس موقع پر کہا کہ ہم سندھ میں ایجنڈا2030 ءکے حوالے سے پرعزم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ17 ایس ڈی جیز کو حاصل کرنے کے لیے اہم تنظیموں کی کوششوں میں بھی دل چسپی رکھتے ہیں۔ تنظیموں کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کی کہ جیسے یو این ڈی پی اور سندھ ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹ کے تعاون سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نجی شعبے کو اپنے ترقیاتی اقدامات میں تعاون کے لیے کام یاب عوامی نجی شراکت دار بنا رہے ہیں جس کی مثال تھر سے لی جا سکتی ہے۔ ملاقات میں کہا گیا کہ حکومت سندھ نے بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کی قیادت میں پائیدار ترقی کے لیے اقوام متحدہ کے عالمی اہداف کو پورا کرنے کی خاطر اپنی اسٹریٹجک کوششیں تیز کی ہیں۔ اجلاس میں کہا گیا کہ سندھ میں17 ایس ڈی جیز اور ایجنڈا2030 ءکو حاصل کرنے کے لیے سیاسی قیادت آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔2016 ءمیں سندھ حکومت نے عالمی ایجنڈا2030 ءاور اس کے17 پائیدار ترقیاتی اہداف کو اپنایا تھا جس نے ایک سمت کو فروغ دیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے عوام الناس کی خوش حالی، غربت میں کمی، نظام کا استحکام، صاف ستھری آب و ہوا، گندگی سے پاک ماحول جیسے اہداف2025 ءتک کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ ملاقات میں کہا گیا کہ اچھی صحت، معیاری تعلیم، صاف پانی کی فراہمی، صفائی ستھرائی، دھویں سے پاک توانائی، بھوک، مہذب روزگار اور اقتصادی ترقی جیسے مسائل بھی حل طلب ہیں جب کہ غربت کا خاتمہ اور صنفی مساوات کا قیام بھی حکومت کے پیش نظر ہے۔ ملاقات میں کہا گیا کہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی قیادت میں صوبہ ترقی کر رہا ہے اور نمایاں طور پر کوشاں ہے لیکن ابھی اس میں مزید کام کی ضرورت ہے۔ پی پی پی قیادت سے یو این ڈی پی کے اعلیٰ سطح کے وفد کی ہونے والی ملاقات میں اتفاق کیا گیا کہ جاری پروگراموں کو عمر کوٹ، سجاول، ٹھٹھہ اور ٹنڈو محمد خان جیسے غریب اور متاثرہ علاقوں تک وسعت دی جائے گی۔
اسٹوڈنٹس ویلفیئر اورگنائزیشن کے تحت یونس رضوی مباحثہ ایوارڈ ونر کے لیے انعامی رقم بڑھا کر 25 ہزار روپے کر دی گئی
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) اسٹوڈنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام ”آل کراچی یونس رضوی انٹر کالجیٹ اردو مباحثہ 2019“ بعنوان ”ہم تو مجبور ہیں وقت کے ہاتھوں“ 9 فروری کو خالق دینا ہال میں منعقد ہو گا، کام یاب ہونے والی ٹیم کو ٹرافی اور25 ہزار روپے نقد انعام دیا جائے گا جب کہ دوم اور سوم آنے والے طالب علموں اور ٹیموں کو ٹرافی اور مباحثے میں شرکت کرنے والے تمام طالب علموں اور ٹیموں کو اسناد دی جائیں گی۔ ایس ڈبلیو او کے میڈیا کوآرڈی نیٹر قاری ہلال احمد ربانی نے مقابلے میں شرکت کے خواہش مند کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علموں سے کہا ہے کہ وہ مباحثے میں شرکت کے لیے7 فروری 2019ءتک ایس ڈبلیو او کے دفتر واقع خالق دینا ہال ایم اے جناح روڈ سے فارم حاصل کر کے اپنے ناموں کا اندراج کرالیں، مقابلے میں شرکت کے لیے اسٹوڈنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن کے فیس بک پیج facebook:studentwelfareorganisation-swo پر بھی رجسٹریشن کرائی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ1951ءسے قائم طالب علموں کی علمی، سماجی و ادبی تنظیم اسٹوڈنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن طالب علموں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ادب و ثقافت کے فروغ کے لیے مختلف تقریبات کا انعقاد بھی کرتی ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی ایس ڈبلیو او کے بانی رکن ایس ایم یونس رضوی کے نام سے جاری ”آل کراچی یونس رضوی انٹر کالجیٹ اردو مباحثہ“ بعنوان ”ہم تو مجبور ہیں وقت کے ہاتھوں“ ہفتہ 9 فروری 2019ءکو خالق دینا ہال میں منعقد کیا جا رہا ہے جس میں کراچی کے تمام کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علموں کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔
لیبارٹری کے قیام کا بنیادی میڈیکل کے بیچلر اسٹوڈنٹس کے تجربات کے مدد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ کسی بھی کھانے پینے کی شے کے حوالے سے بنیادی معلومات حاصل کر سکیں،پورے سندھ میں اس طرح کی واحد فوڈ سائنس لیبارٹری آغا خان اسپتال کے پاس ہے لیکن اس کی گنجائش کم ہے جب کہ ڈاؤ یونی ورسٹی اینڈ ہیلتھ سائنسز کی جانب سے قائم کی جانے والی اس فوڈ سائنس لیبارٹری میں آغا خان کے مقابلے میں کہیں زیادہ گنجائش بھی موجود ہے اور جدید آلات سے بھی مزین ہے، پرنسپل اسکول آف پبلک ہیلتھ کاشف شفیق
کراچی (اسٹاف رپورٹر) ڈاؤ یونی ورسٹی ہیلتھ اینڈ سائنسز کے زیر انتظام اوجھا کیمپس میں ایک جدید فوڈ سائنس لیبارٹری کا افتتاح کر دیا گیا، افتتاح ڈاؤ یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد سعید قریشی نے کیا۔ اس موقع پر پرنسپل اسکول آف پبلک ہیلتھ کاشف شفیق اور ہیڈ آف نیوٹریشن پروگرام ڈاکٹر نیلوفر صفدر بھی موجود تھیں۔ پرنسپل اسکول آف پبلک ہیلتھ کاشف شفیق نے اس موقع پر ”جسارت“ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس لیبارٹری کے قیام کا بنیادی میڈیکل کے بیچلر اسٹوڈنٹس کے تجربات کے مدد فراہم کرنا ہے تاکہ وہ کسی بھی کھانے پینے کی شے کے حوالے سے بنیادی معلومات حاصل کر سکیں کہ کس چیز میں کتنی شکر ہے، کتنی کیلوریز ہیں اور اس میں پروٹین یا کاربو ہائیڈریٹ کتنی مقدار میں ہیں، یہ لیبارٹری طلبہ و طالبات کی تحقیقات میں انتہائی ممد و معاون ثابت ہوگی۔ کاشف شفیق نے بتایا کہ پورے سندھ میں اس طرح کی واحد فوڈ سائنس لیبارٹری آغا خان اسپتال کے پاس ہے لیکن اس کی گنجائش کم ہے جب کہ ڈاؤ یونی ورسٹی اینڈ ہیلتھ سائنسز کی جانب سے قائم کی جانے والی اس فوڈ سائنس لیبارٹری میں آغا خان کے مقابلے میں کہیں زیادہ گنجائش بھی موجود ہے اور جدید آلات سے بھی مزین ہے۔ کاشف شفیق کا یہ بھی کہنا تھا کہ فی الحال تو یہ فوڈ سائنس لیبارٹری طلبہ و طالبات کی تحقیقات اور تجربات کے لیے بنائی گئی ہے تاہم مستقبل میں اسے تجارتی بنیادوں پر بھی چلایا جائے گا جس کے تحت فوڈ اتھارٹیز اگر ہمیں کھانے پینے کی اشیاءوغیرہ کے اجزاءپڑتال کے لیے بھیجیں گی تو ہم اس کے لیے بھی کام کریں گے کیوں کہ سندھ بھر میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی بڑی اور جدید فوڈ سائنس لیبارٹری ہے جو ڈاؤ یونی ورسٹی نے قائم کی ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں میں فراہمی و نکاسی آب سے متعلق متعدد شکایات کے ازالے سمیت واٹر بورڈ کو دیگر اخراجات کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی، صوبائی و وفاقی ادارے واٹر بورڈ کے واجبات بر وقت ادا کریں، سی ای او اسٹیل ملز سے واٹر بورڈ کے وفد کی ملاقات میں بات چیت
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) ایم ڈی واٹر بورڈ اسداللہ خان کی ہدایات پر ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر آر آر جی و فنانس محمد ثاقب کی قیادت میں واٹر بورڈ کے وفد نے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر محمد اقبال سے ملاقات کی، اسٹیل ملز کے سربراہ نے واٹر بورڈ کو222 ملین روپے کے موجودہ واجبات کی ادائیگی پر رضا مندی کا اظہار کردیا، آئندہ اسٹیل ملز ہر ماہ بر وقت بلوں کی ادائیگی ممکن بنائے گا۔ تفصیلات کے مطابق ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان کی ہدایات پر واٹر بورڈ کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر آر آر جی و فنانس محمد ثاقب کی قیادت میں واٹر بورڈ کے ایک وفد نے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور جوائنٹ سیکریٹری وزارت پیدا وار ڈاکٹر محمد اقبال سے ملاقات کی۔ اس موقع پر دیگر کے علاوہ اسٹیل ملز کے چیف فنانس آفیسر محمد عارف شیخ، واٹر بورڈ کے ڈائریکٹر بلک فہیم صدیقی، ایگزیکٹیو انجینئر میٹر ڈویژن ندیم کرمانی بھی موجود تھے۔ ڈی ایم ڈی آر آر جی و فنانس نے اسٹیل ملز کے نئے سربراہ کو عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دی۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ اپنے ہی محدود وسائل سے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے مکینوں کو فراہمی و نکاسی آب کی بہتر سہولیات فراہم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں فراہمی و نکاسی آب سے متعلق متعدد شکایات کے ازالے سمیت واٹر بورڈ کو دیگر اخراجات کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ نجی، صوبائی و وفاقی ادارے واٹر بورڈ کے واجبات بر وقت ادا کریں۔ اس موقع پر چیف ایگزیکٹیو آفیسر اسٹیل ملز نے وفد کو یقین دلایا کہ اسٹیل ملز دو سے تین روز میں واٹر بورڈ کے موجودہ222 ملین کے واجبات کی ادائیگی ممکن بنائے گا جب کہ آئندہ ماہ سے باقاعدگی سے ماہانہ بلوں کی ادائیگی ممکن بنائی جائے گی۔ وفد کے اراکین نے تعاون پر ایم ڈی واٹر بورڈ کی جانب سے چیف ایگزیکٹیو آفیسر اسٹیل ملزکا شکریہ ادا کیا۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن اور فنکشنلز ڈاکٹر فورم کی کال پر سرکاری اسپتالوں میں شروع ہونے والی ہڑتال دوسرے روز بھی جاری رہی۔ منگل کی صبح ڈاکٹر اپنی ڈیوٹیوں پر تو آئے لیکن احتجاجاً کام کچھ نہیں کیا، ہڑتال کے باعث او پی ڈیز، ایمر جنسی میں مریضوں کا دباؤ بڑھتا گیا لیکن ڈاکٹر اپنی ہڑتال پر قائم رہے۔ جناح اسپتال، سول اسپتال، لیاری جنرل اسپتال کے علاوہ سندھ گورنمنٹ اسپتال قطر اورنگی اور نیوکراچی میں بھی ڈاکٹروں نے او پی ڈی کا مکمل بائیکاٹ کر کے حکومت اور محکمہ صحت کے خلاف نعرے بازی کی
وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کے الاؤنس میں اضافہ کردیا ہے تاہم ڈاکٹر بضد ہیں کہ باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری کیا جائے۔ اس ضمن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سیکریٹری صحت کے ساتھ مذاکرات بھی مسترد ہوگئے اور ڈاکٹروں نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں31 جنوری کو کراچی پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک مارچ اور دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے اپنے مطالبات کے حق میں منگل کو دوسرے روز بھی ہڑتال کی، تمام اسپتالوں میں او پی ڈیز بند رکھیں، ہڑتال کے باعث ہزاروں مریض رل گئے اور ان کی مشکلات بڑھ گئیں۔ وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کے الاؤنس میں اضافہ کردیا ہے تاہم ڈاکٹر بضد ہیں کہ باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری کیا جائے۔ اس ضمن میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سیکریٹری صحت کے ساتھ مذاکرات بھی مسترد ہوگئے اور ڈاکٹروں نے مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت میں31 جنوری کو کراچی پریس کلب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک مارچ اور دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن، ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن اور فنکشنلز ڈاکٹر فورم کی کال پر سرکاری اسپتالوں میں شروع ہونے والی ہڑتال دوسرے روز بھی جاری رہی۔ منگل کی صبح ڈاکٹر اپنی ڈیوٹیوں پر تو آئے لیکن احتجاجاً کام کچھ نہیں کیا، ہڑتال کے باعث او پی ڈیز، ایمر جنسی میں مریضوں کا دباؤ بڑھتا گیا لیکن ڈاکٹر اپنی ہڑتال پر قائم رہے۔ جناح اسپتال، سول اسپتال، لیاری جنرل اسپتال کے علاوہ سندھ گورنمنٹ اسپتال قطر اورنگی اور نیوکراچی میں بھی ڈاکٹروں نے او پی ڈی کا مکمل بائیکاٹ کر کے حکومت اور محکمہ صحت کے خلاف نعرے بازی کی۔ بعض اسپتالو ں میں آپریشن تھیٹر سمیت دیگر طبی شعبہ جات بھی بند کرنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔
اس صورت حال میں مریض رل گئے اور اسپتالوں کے مختلف شعبہ جات کے چکر لگاتے رہے۔ مریضوں کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج بہت مہنگا ہے جو دسترس میں نہیں، سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹروں نے ہڑتال کی ہوئی ہے، ان حالات میں کہاں جائیں، حکومت اس مسئلے کا کوئی فوری حل نکالے اور ڈاکٹرز بھی ہم مریضو ں پر رحم کریں۔ دوسری جانب محکمہ صحت سندھ نے گریڈ 17سے 20 کے ڈاکٹروں کے الاو ¿نسز میں اضافہ کردیا ہے تاہم اس ضمن میں فی الحال نوٹی فکیشن جاری نہیں کیا گیا۔ ایک بیان میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے کہا کہ محکمہ صحت سندھ میں محکمہ صحت کے ملازمین کو گریڈ 17 (جنرل کیڈر اور ڈینٹسٹ) کو ماہانہ 15 ہزار، میڈیکل ڈاکٹرز گریڈ 18، 19 اور 20 (جنرل کیڈر، اسپیشلسٹ، ڈینٹل سرجن) ماہانہ 10ہزار، میڈیکل اسٹاف کو ماہانہ بنیادی تنخواہ کے مساوی، جے پی ایم سی اور این آئی سی ایچ کے ملازمین کو ماہانہ بنیادی تنخواہ کا نصف اور سیور نگ اسٹاف کو تنخواہ کا20 فی صد دیا جا رہا ہے، ضلع تھرپارکر میں فرائض انجام دینے والے اسپیشلسٹ کو ایک لاکھ چالیس ہزار روپے، میڈیکل آفیسرز گریڈ17 کو 90 ہزار روپے جب کہ میڈیکل اسٹاف کو دس ہزار روپے ماہانہ ادا کر رہا ہے، ہڑتال پر جانے والے ڈاکٹرز کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ صوبے کے عوام کے مفاد میں اپنی ہڑتال ختم کر دیں۔ ڈاکٹروں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر محبوب علی نے کہا کہ منگل کو پی ایم اے رہنما ڈاکٹر پیر منظور، ڈاکٹر رزاق راجپر، ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سلطان پر مشتمل 4 رکنی وفد نے سیکریٹری صحت ڈاکٹر سعید اعوان سے مذاکرات کیے جو ناکام ہوگئے۔ وفد نے سیکریٹری صحت کو ڈاکٹروں کے مسائل سے آگاہ کیا اور کہا کہ وہ تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے کا باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری کروائیں، اعلان تو کئی بار ہو چکے ہیں جس پر سیکریٹری صحت نے کہا کہ وہ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بات کریں گے۔ ترجمان ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ڈاکٹر محبوب علی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کا کام ہڑتال اور احتجاج کرنا نہیں لیکن حکومت نے ہمارے مطالبات کو تسلیم نہیں کر کے ہمیں اس راستے پر پہنچایا ہے، آج (بدھ کو) بھی ہڑتال جاری رکھیں گے، اگر31 جنوری تک ہمارے مطالبات تسلیم نہ ہوئے تو کراچی پریس کلب پر جمع ہوں گے، وہاں سے وزیر اعلیٰ ہاؤس تک پید ل مارچ کریں گے اور دھرنا دیں گے۔
ادویات کی قیمتوں میں خود ساختہ طورپر60 فی صد اضافہ کرنے والی ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی وزارت صحت اور ڈریپ حکام کی پراسرار خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین کوکب اقبال نے کہا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ 15 فی صد اضافہ پہلے ہی مریضوں کے لیے ناقابل تلافی بوجھ تھا کہ فارما کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں خود ساختہ طور پر60 فی صد کا مزید اضافہ کر دیا ہے جس سے مریضوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں، چیئرمین صارفین کی نمائندہ تنظیم کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان
کراچی (اسٹاف رپورٹر) صارفین کی نمائندہ تنظیم کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان نے ادویات کی قیمتوں میں خود ساختہ طورپر60 فی صد اضافہ کرنے والی ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی وزارت صحت اور ڈریپ حکام کی پراسرار خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین کوکب اقبال نے کہا ہے کہ ادویات کی قیمتوں میں حالیہ 15 فی صد اضافہ پہلے ہی مریضوں کے لیے ناقابل تلافی بوجھ تھا کہ فارما کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں خود ساختہ طور پر60 فی صد کا مزید اضافہ کر دیا ہے جس سے مریضوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں، ادویات کی ہوش ربا قیمتوں کی وجہ سے علاج کرانے کے خواہش مند مریضوں کو زندگی بچانے کے لیے اپنی جمع پونجی کے ساتھ گھر بار بھی فروخت کرناپڑے گا کیوں کہ 60 فی صد اضافے کا بوجھ غریب مریضوں کے بس کی بات نہیں، محسوس ہوتا ہے کہ ادویہ ساز کمپنیاں مریضوں کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ لینا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر قومی صحت عامر محمود کیانی ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف سخت اقدام اٹھانے کے بجائے دکھاوے کے لیے سرکاری اسپتالوں کے دورے کر رہے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ فارما کمپنیوں کے60 فی صد اضافے کا نوٹس لیں اور ڈریپ کو ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا حکم دیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی فارما کمپنی نے اریتھروسن 250 ملی گرام کی قیمت548 روپے43 پیسے سے بڑھا کر921 روپے5 پیسے کر دی ہے جس سے ایک گولی کی قیمت میں373 روپے کا اضافہ60 فی صد سے بھی زیادہ ہے، ایسی ادویہ ساز کمپنیاں غریب مریضوں کے حق پر ڈاکا مار رہی ہیں اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی جو صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی فارما کمپنیوں کے ساتھ مبینہ طور پر ساز باز کر کے خاموش ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری توجہ طلب مسئلے کو حل کرائیں اور از خود اضافہ کرنے اور من مانی کرنے والی ادویہ ساز کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈریپ اگر فارما کمپنیوں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہے تو بہتر ہے کہ اس ادارے کو بند کر کے ڈریپ کے سربراہ کے خلاف تحقیقات کی جائیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ انہوں نے ادویہ ساز اداروں سے مل کر کوئی ساز باز کی یا ادویہ ساز کمپنیوں نے اپنے طور پر دواں کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ چند سال میں دوا ساز کمپنیوں نے اربوں روپے کا منافع کمایا جب کہ کئی غریب صارفین مہنگی دوا نہ خریدنے کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھے، افسوس اس امر پر ہے کہ جان بچانے والی دواو ¿ں کی قیمتوں میں بلا جواز اضافہ کیا گیا ہے جب کہ کثیرالقومی اور مقامی کمپنیاں مہنگی دوائیں فروخت کر کے اربوں روپے بیرون ملک بھیج رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادویات ساز کمپنیاں ریٹیلرز اور ہول سیلرز کے24 فی صد منافع کو کم کر دیں اور ڈاکٹرز کو دیے جانے والے تحفوں اور مراعات کا خاتمہ کر دیں تو ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
صرف سعودی عرب میں فضائی میزبانوں کے ہوٹل میں قیام پر سالانہ 600 ملین اخراجات تھے, سہولت ختم کرنے سے پی آئی اے کو مجموعی طور پر سالانہ ایک ارب روپے کی بچت ہوگی
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) پی آئی اے انتظامیہ نے فضائی میزبانوں کی اندرون و بیرون ملک ہوٹل میں قیام کی سہولت ختم کر دی ہے۔ اس ضمن میں ذرائع نے بتایا کہ قومی ایئر لائن میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، اسی تناظر میں غیر ضروری اخراجات کی روک تھام کے لیے مزید اقدامات کرتے ہوئے پی آئی اے انتظامیہ نے پروازوں پر ڈیوٹی کرنے والے فضائی عملے کی ہوٹل میں قیام کی سہولت ختم کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق صرف سعودی عرب میں فضائی میزبانوں کے ہوٹل میں قیام پر سالانہ600 ملین روپے اخراجات آتے تھے، اسی وجہ سے اب جدہ اور مدینہ جانے والی تمام پرواز پر روانہ ہونے والا عملہ بغیر قیام کیے اگلی پرواز سے واپس پاکستان آ جائے گا، اسی سلسلے میں پی آئی اے نے بینکاک، کوالالمپور میں بھی ہوٹل کی سہولت ختم کر دی ہے۔ مذکورہ سیکٹرز پر سہولت ختم کرنے سے پی آئی اے کو مجموعی طور پر سالانہ ایک ارب روپے کی بچت ہوگی۔ گزشتہ روز پی آئی اے انتظامیہ نے فضائی میزبانوں کی ڈیوٹی کے اوقات کار بھی 12 گھنٹے کے بجائے 16 گھنٹے کردیے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کارگو میں 50 لاکھ روپے سے زائد کی کرپشن کی گئی تھی، سامان بک کروا کر جعلی ایئر ویز بل کے ذریعے خورد برد کی گئی
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) پی آئی اے کے کارگو میں خورد برد کے معاملے پر انتظامیہ نے سپروائزر اور اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا، کارگو میں50 لاکھ روپے سے زائد کی کرپشن کی گئی تھی۔ پی آئی اے نے کارگو میں ہونے والے50 لاکھ روپے کی خورد برد کے معاملے پر ایکشن لیتے ہوئے ایف آئی آر درج کرا دی ہے، جس میں سپروائزر اور اہل کاروں کو نام زد کیا گیا ہے۔ مذکورہ مقدمہ ایئر پورٹ تھانے میں پی آئی اے کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد الطاف کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ذرائع نے بتایا کہ پی آئی اے کارگو میں 50 لاکھ روپے سے زائد کی کرپشن کی گئی تھی، سامان بک کروا کر جعلی ایئر ویز بل کے ذریعے خورد برد کی گئی۔ واضح رہے کہ پی آئی اے پہلے ہی جعل سازی میں ملوث کارگو سپر وائزر، سکیورٹی اہل کار اور کیشئر کو معطل کر چکی ہے اور تینوں کے خلاف تحقیقات بھی جاری ہیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی توہین مذہب کے مقدمے میں بریت اور رہائی کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل مسترد کر دی ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ محض جھوٹے بیانات کی بنیاد پر کسی کو پھانسی نہیں چڑھایا جا سکتا۔
مدعی مقدمہ قاری سالم کی طرف سے دائر کی گئی اس اپیل میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت عظمی کی طرف سے 31 اکتوبر سنہ 2018 کو دیے گئے فیصلے میں ان حقائق کو مدنظر نہیں رکھا گیا جس کی بنیاد پر ماتحت عدالتوں نے آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے مقدمے میں موت کی سزا سنائی تھی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ درخواست گزار سپریم کورٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے بارے میں کسی خامی کی نشاندی کرنے سے قاصر رہے جس کے تحت عدالت اپنے کیے گئے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
نامہ نگار کے مطابق منگل کو درخواست کی سماعت کے دوران عدالت نے ریمارکس دیے کہ توہین مذہب کا معاملہ نہ ہوتا تو عدالت جھوٹی گواہی دینے والوں کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ درج کرتی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ قانون میں واضح طور پر درج ہے کہ اگر کسی ایسی مقدمے میں جہاں کسی شخص کو سزائے موت دی گئی ہو لیکن گواہان کے بیانات جھوٹے ہوں تو عدالت ان گواہان کا سمری ٹرائل کر کے انھیں عمر قید کی سزا دے سکتی ہے۔
عدالت کی جانب سے مزید کہا گیا کہ گواہان کے اپنے بیانات میں کوئی مماثلت نہیں تھی۔
سماعت کے آغاز میں جب عدالت نے درخواست گزار کے وکیل غلام مصطفی چوہدری سے استفسار کیا کہ پہلے وہ عدالت کو اس بات پر مطمئن کریں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایسی کون سی خامیاں ہیں جنھیں بنیاد بنا کر اُنھوں نے نظرثانی کی اپیل دائر کی ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اس لیے بہتر ہوگا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دیا جائے اور اس بینچ میں وفاقی شریعت کورٹ کا جج بھی شامل کیا جائے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پہلے عدالت کو اس بات پر مطمئن کریں عدالت عظمی کے فیصلے میں کوئی خامیاں موجود ہیں۔
عدالت نے درخواست گزار کے وکیل کو سپریم کورٹ کا 31 اکتوبر کا فیصلہ پڑھنے کو کہا جس میں آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے مقدمے میں بری کردیا گیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل غلام مصطفی چوہدری سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے لکھے گئے فیصلے کا حوالہ دینے کی کوشش کی جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اُن کے الزامات کا جواب دینے کے لیے سابق چیف جسٹس بینچ کا حصہ نہیں ہیں اس لیے بہتر ہے کہ اس بارے میں بات نہ کی جائے اور صرف فیصلے پر ہی توجہ مرکوز کی جائے۔
عدالتی حکم پر درخواست گزار کے وکیل نے تمام فیصلے کو دوبارہ پڑھا اور سپریم کورٹ کا بینچ ہر ہر پیراگراف پر وکیل سے پوچھتا رہا کہ کیا اس میں خامی ہے جس پر غلام مصطفی نفی میں جواب دیتے۔
عدالت نے اس مقدمے میں گواہوں کی اہلیت پر سوالات اُٹھائے اور کہا کہ قران پر حلف دینے کے باوجود مدعی مقدمہ سمیت جتنے بھی سرکاری گواہوں نے بیانات دیے وہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے تھے۔
بینچ کے سربراہ نے مدعی مقدمہ قاری سالم کی اہلیت پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ کیسے امام مسجد ہیں جو خود مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست بھی نہیں لکھ سکتے اور جس وکیل سے اُنھوں نے درخواست لکھوائی اس کا نام بھی وہ نہیں جانتے تھے۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے بھی اس مقدمے میں اپنا کام ایمانداری سے نہیں کیا اور محض ایک سب انسپکٹر کو توہین مذہب کے مقدمے کی تفتیش سونپ دی گئی جبکہ قانون میں درج ہے کہ ایس پی رینک کا افسر ہی توہین مذہب کے مقدمے کی تفتیش کرسکتا ہے۔
عدالت نے غلام مصطفی چوہدری سے کہا کہ وہ ایسے سرکاری گواہوں کے خلاف کارروائی تجویز کریں جنھوں نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے۔ اس کے بعد عدالت نے نظرثانی کی اپیل کو مسترد کر دیا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا نکتہ رہ گیا ہو جو کہ عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں نظرانداز کیا ہو تو پھر ہی عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتی ہے۔
واضح رہے کہ ماتحت عدالتوں نے توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ مسیح کو موت کی سزا سنائی تھی تاہم سپریم کورٹ نے اس سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے آسیہ بی بی کو بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 31 اکتوبر کو اپنے فیصلے میں آسیہ بی بی پر عائد الزامات کے خلاف گواہوں کے بیانات میں تضاد کو ایک وجہ بتاتے ہوئے انھیں بےقصور قرار دیا تھا۔
عدالت نے تفصیلی فیصلے میں قرار دیا تھا کہ یہ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ جو دعویٰ کرتا ہے، ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 'پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ثابت کرے۔ جس جگہ بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے۔'
آسیہ بی بی اور ان کے خاندان کے افراد کہاں ہیں؟
کمرہ عدالت سے نکلنے کے بعد آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ توہین مذہب کے مقدمے میں عدالت عظمی سے رہائی پانے کے باوجود ان کی موکلہ کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ملک کے متعدد عملائے کرام نے آسیہ بی بی کے قتل کے فتوے جاری کر رکھے ہیں اس لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ بیرون ملک چلی جائیں۔
سیف الملوک کا کہنا تھا کہ اگرچہ خود ان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنے اہلخانہ کے ہمراہ پاکستان میں ہی رہیں گے۔
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک یہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ آسیہ کی دونوں بیٹیاں کینیڈا منتقل ہو چکی ہیں تاہم وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ایک نامعلوم مقام پر موجود ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سیف الملوک نے یہ بھی کہا کہ آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ اس خاندان کے ترجمان جوزف ندیم کے اور ان کے اہلخانہ بھی کینیڈا منتقل ہو گئے ہیں۔
سیف الملوک کے مطابق یورپی ممالک نے جوزف ندیم اور ان کے اہلخانہ کو ویزہ دینے یا اُنھیں مستقل سکونت دینے سے انکار کر دیا تھا تاہم کینیڈا کی حکومت نے آسیہ بی بی کی دونوں بیٹیوں کے علاوہ جوزف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی سکونت اختیار کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
آسیہ بی بی کے خاوند عاشق مسیح کے بارے میں سیف الملوک کا کہنا تھا کہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ رہے ہیں تاہم انھوں نے اس مقام یا علاقے کی نشاندہی نہیں کی جہاں پر یہ دونوں آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد مقیم ہیں۔
تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے رد عمل
آسیہ بی بی کی رہائی کے عدالتی فیصلے کے بعد ملک بھر میں مظاہرے کرنے والی مذہبی اور سیاسی جماعت تحریک لبیک کے مرکزی قائم مقام امیر علامہ ڈاکٹر شفیق امینی نے ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے آسیہ بی بی کیس کی نظر ثانی درخواست کے لیے بنائے گئے بینچ کو مسترد کیا ہے۔
پیغام میں کہا گیا کہ اگر آسیہ بی بی کو جوڈیشل ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ موجودہ بینچ کو تحلیل کرکے یقین دہانی کے مطابق لارجر بینچ تشکیل دیا جائے کیونکہ حکومت نے لارجر بینچ بنانے کا وعدہ کیا تھا اور بینچ میں شریعہ کورٹس کے ججز شامل کرنے کی یقین دہانی بھی کرانے کے ساتھ ساتھ نظرثانی اپیل کی سماعت کے وقت علما کی معاونت بھی طلب کیے جانے کا کہا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
ڈاکٹر شفیق امینی کا کہنا تھا کہ ملکی سکیورٹی کے لیے فوجی عدالتیں بنائی جاسکتی ہیں تو ناموس رسالت کے مقدمے میں شریعہ کورٹس کے ججوں کو کیوں طلب نہیں کیا جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے کریک ڈاؤن اور گرفتاریوں کے خلاف تو ہم نے صبر کیا، لیکن اب بات بڑھ کر ہمارے ایمان کی آگئی، کوئی ہم سے سمجھوتے کی توقع نہ رکھے۔‘
انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس حساس کیس میں حکومت اور مقتدر ادارے ذمہ دارانہ کردار ادا کریں اور پنجاب اسمبلی کے باہر ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔
خیال رہے کہ آسیہ بی بی کی بریت کے بعد اس جماعت کی قیادت کی طرف سے آسیہ بی بی کی رہائی کا فیصلہ دینے والے جج صاحبان اور فوج کی قیادت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں توہین آمیز الفاظ بھی کہے گئے تھے۔
اس کے بعد 23 نومبر کو جماعت کے قائد خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کے علاوہ دیگر رہنما کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور اب وہ غداری سمیت مختلف مقدمات میں نامزد ہونے کی وجہ سے ان دنوں مختلف جیلوں میں قید ہیں۔
تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف حکومت کے اس اقدام پر حزب مخالف کی جماعتوں نے بھی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔
سماعت سے قبل سکیورٹی انتظامات سخت
آسیہ بی بی کی رہائی کے بعد ملک میں مذہبی جماعتوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا تھا اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی طرف سے عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل کی سماعت کے موقعے پر سپریم کورٹ اور ریڈ زون میں کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے تھے۔
عدالت عظمیٰ میں صرف ان افراد کو جانے کی اجازت تھی جن کے مقدمات کی سماعت ہونا تھی۔ اس کے علاوہ وفاقی دارالحکومت کے مختلف علاقوں میں بھی پولیس اور رینجرز کی گشت بڑھا دی گئی تھی۔