اس خاموش بیماری کو آگاہی اور سرجری کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے، آغا خان اسپتال میں واک اور ورکشاپ سے ڈاکٹر احسان باری، ڈاکٹر شہزاد و دیگر کا خطاب
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان میں پارکنسننر کی بیماری میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور مریضوں کی تعداد 450,000 ہو چکی ہے اور ان میں بیشتر مریضوں کو اس بیماری کے علاج کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے گزشتہ روز آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے زیر اہتمام پارکنسنز کے حوالے سے آگاہی واک اور ورکشاپ کے دوران کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد ہر سال پاکستان پارکنسنز سوسائٹی کے تعاون سے کیا جاتا ہے۔ پارکنسنز کی بیماری خاموشی کے ساتھ مریضوں کے دماغ سے داخل ہوتی ہے اور کئی مریضوں میں اس کے اثرات کئی عرصے بعد معلوم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کی حالت تشویش ناک ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس بیماری کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے تاکہ بیماری کی بر وقت تشخیص سے علاج کو ممکن بنایا جا سکے۔ ڈیپ برین اسیمولیشن (ڈی بی ایس) کے ذریعے چلنے پھرنے میں دشواری، تھکن، ٹریمر کے اثرات میں کمی ممکن ہے۔ کام یاب ڈی بی ایس کے ذریعے مریض دواﺅں کے بغیر بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ ڈی بی ایس ایک سرجری کے عمل کے ذریعے دماغ کے اس حصے کو سگنل دیتا ہے جس کے ذریعے انسان چلتا پھرتا ہے اس کا کام دل کی بیٹری کی طرح کا ہوتا ہے۔ اس موقع پر گفتگوکرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر نیورو سرجری ڈاکٹر احسان باری نے کہا کہ پارکنسنز کا علاج سرجری اور آگاہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس موقع پر سروس لائن چیف مائنڈ اینڈ برین اے کے یو ایچ ڈاکٹر شہزاد سلیم نے کہا کہ پارکنسنز کی بیماری کے ساتھ مشکل ہوتا ہے لیکن ایسے بہت سے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریض ہمارے دل کے بہت قریب ہوتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کے جینے کے طریقے کو آسان کرنے میں ان کی مدد کریں۔ اس سال واک کے ساتھ ایک پینل ڈسکشن کے بھی انعقاد کیا گیا تھا جس میں ماہر نیورو سرجن، نیورولوجسٹ اور دیگر ماہرین نے شرکت کی اور شرکاءکے سوالوں کے جواب بھی دیے اور 100روپے کے عوض چیک اپ بھی کیا۔
No comments:
Post a Comment