ملبے سے اسکول یونیفارم پہنے ایک بچے سمیت5 افراد کو نکال کر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، عمارت میں چار فیملیز رہائش پذیر تھیں، علاقہ مکین
گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ کی عمارت گرنے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو خود حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) شہر قائد کے علاقے ملیر جعفر طیار سوسائٹی میں4 منزلہ عمارت گر گئی جس کے نتیجے میں2 خواتین سمیت3 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ حادثے کے بعد پاک فوج کا دستہ بھی جائے وقوع پر بھاری مشینری کے ساتھ پہنچا اور ریسکیو کا کام شروع کیا۔ گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ نے عمارت گرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو خود حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کی۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے جعفر طیار سوسائٹی میں پیرکی صبح ساڑھے7 بجے30 سال پرانی4 منزلہ عمارت زمین بوس ہوگئی، جس کے نتیجے میں3 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ ملبے سے اسکول یونیفارم پہنے ایک بچے سمیت5 افراد کو نکال کر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ جاں بحق ہونے والے شخص کی شناخت55 سالہ حسن عباس کے نام سے ہوئی۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق تینوں زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق عمارت میں چار فیملیز رہائش پذیر تھیں۔ جن میں سے دو فیملیز گھر پر موجود نہیں تھیں۔ عمارت گرنے کا واقعہ پیر کی صبح سویرے پیش آیا۔ جس کے فوری بعد علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو کا کام شروع کر دیا۔ پولیس اور رینجرز کے جوان بھی علاقے میں پہنچ گئے اور لوگوں کو جائے حادثہ سے دور رکھنے کی کوشش کی تاکہ ریسکیو کے کاموں میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ حادثے کے بعد پاک فوج کا دستہ بھی جائے وقوع پر بھاری مشینری کے ساتھ پہنچا اور ریسکیو کا کام شروع کر دیا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق عمارت30 سال پرانی تھی اور96 گز کے رقبے پر تعمیر کی گئی تھی۔ ملیر سٹی پولیس کے مطابق جعفر طیار سوسائٹی میں علم دار مسجد و امام بارگاہ کے سامنے پنجتن پاک نامی4 منزلہ رہائشی عمارت پیر کی صبح ساڑھے سات بجے زمیں بوس ہوگئی۔ ملبے تلے دب کر مالک مکان اور ایک خاتون جاں بحق ہوگئے جب کہ ایک بچے سمیت5 زخمیوں کو ملبے سے نکال لیا گیا ہے۔ جائے وقوع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک فیملی حادثے کے وقت عمارت میں نہیں تھی۔ ملیر سٹی تھانے کے ایس ایچ او انسپکٹر شاکر حسین نے بتایا کہ عمارت میں کم از کم چھ خاندان رہائش پذیر تھے۔ جس وقت یہ حادثہ پیش آیا تمام افراد اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عمارت گرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو خود حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہر صورت انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے جب کہ مجھے عمارت گرنے کی تفصیلی رپورٹ بھی دی جائے۔ انہوںنے کہا کہ ملبے تلے دبے افراد کو فوری نکالنے کے انتظامات یقینی بنائے جائیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ گورنر سندھ نے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ بلڈنگ قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا، عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ لوگوں کی جان بچانا حکومت کا کام ہے اور حکومت ہمیشہ رضا کاروں پر انحصار کرتی ہے، بیورو کریسی کی نااہلی کا ملبہ حکومت پر گرتا ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ تنگ گلیوں کی وجہ سے ہیوی مشینری کا جانا ممکن نہیں تاہم متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے نور الدین احمد نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ شہر میں تمام عمارتوں کی تعمیر کی منظوری اور نگرانی کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ذمے دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرکیٹیکٹس، ایس بی سی اے میں عمارتوں کی تعمیر کا منصوبہ جمع کرواتے ہیں جس کے بعد ادارہ ماسٹر پلان کے تحت جانچ پڑتال کرتا ہے۔ نور الدین احمد نے بتایا کہ ماسٹر پلان میں سڑک کی چوڑائی، عمارت کی اونچائی اور دیگر معاملات دیکھے جاتے ہیں جب کہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ علاقے میں ریسکیو کی گاڑیاں، فائر فائٹرز کے ٹرک اور ہیوی مشینری کی جگہ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پیش آنے والے واقعے میں سڑک اتنی کشادہ نہیں تھی کہ ریسکیو کی گاڑیاں گزر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ملیر میں گرنے والی عمارت کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن ممکنہ وجہ ناقص تعمیر ہو سکتی ہے، کوئی بھی عمارت تعمیر کرنے سے قبل یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہاں کی زمین عمارت کا وزن برداشت کرسکتی ہے یا نہیں۔ ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا ہے کہ اسپتال میں تمام تر انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریسکیو ادارے اور پولیس جائے وقوع پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملبہ ایک طریقہ کارکے تحت ہٹایا جاتا ہے ایسے نہیں ہٹایا جاسکتا، کوشش ہے کہ ملبے تلے دبے تمام افراد کو نکالا جا سکے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ عمارت20 سے25 سال پہلے تعمیرکی گئی تھی، تنگ گلیوں کے باعث ہیوی مشینری پہنچانے میں مشکلات ہیں۔
No comments:
Post a Comment