علاقہ مکینوں کو شدید پریشانی کا سامنا، گائے بھینسوں کے گوبر وغیرہ کی گندگی سے بچوں اور بڑوں میں صحت کے مسائل پیدا ہونے لگے، علاقہ مکینوں کی جانب سے ڈپٹی کمشنر ضلع کورنگی کو درخواستیں دینے کے باوجود تا حال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی
علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ بلدیاتی ادارے اس قدیم ترین مارکیٹ پر اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے اسے خستہ حالی سے نجات دلائیں اور صفائی ستھرائی کے انتظامات کو بہتر بنائیں تاکہ یہ مارکیٹ بحال ہو سکے
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جے ایریا کورنگی کی قدیم ترین جے مارکیٹ کی دکانوں کے راستے پر قبضے کے بعد غیر قانونی گائے بھینسوں کا باڑہ قائم، علاقہ مکینوں کو شدید پریشانی کا سامنا، گائے بھینسوں کے گوبر وغیرہ کی گندگی سے بچوں اور بڑوں میں صحت کے مسائل پیدا ہونے لگے، علاقہ مکینوں کی جانب سے ڈپٹی کمشنر ضلع کورنگی کو درخواستیں دینے کے باوجود تا حال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ تفصیلات کے مطابق جے ایریا کورنگی (لانڈھی زون) میں ایوب خان کے دور میں قائم کی جانے والی ”جے مارکیٹ“ ایک طرف صفائی ستھرائی نہ ہونے اور متعلقہ بلدیاتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث خستہ حالی کا شکار ہے تو دوسری جانب قبضہ مافیا نے مارکیٹ کی دکانوں کے راستے پر قبضہ کر کے وہاں گائے بھینسوں کا باڑہ قائم کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں ہروقت گائے بھینسوں کے پیشاب اور گوبر کی وجہ سے گندگی پھیلی رہتی ہے اور بدبو کی وجہ سے علاقہ مکینوں کا رہنا محال ہو گیا ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس بدبو اور گندگی کی وجہ سے ہمارے بچے بیمار ہو رہے ہیں اور ان میں سانس کے امراض پیدا ہو رہے ہیں، ڈپٹی کمشنر ضلع کو رنگی اور متعلقہ حکام کو متعدد پر شکایات درج کرانے اور درخواستیں دینے کے باوجود تا حال اس بھینس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلے اپنے طور پر ان افراد سے بات کی کہ وہ رہائشی علاقے میں بھینسوں کا باڑہ قائم نہ کریں تاہم ان کے نہ ماننے پر 30 اگست 2018ءاور 15 فروری 2019ءکو اس بھینس مافیا کے خلاف ڈپٹی کمشنر ضلع کورنگی کو درخواستیں جمع کرائی تھیں کہ بھینس مافیا کے ثناءاللہ، ایاز انصاری اور دیگر نامعلوم افراد نے مارکیٹ کی دکانوں کے راستے پر قبضہ کر کے وہاں گائے بھینسوں کا باڑہ قائم کر لیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ علاقہ مکینوں کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست کے مطابق یہ تمام حضرات علاقے میں غیر قانونی و غیر اخلاقی افعال کے حامل ہیں اور خود کو قانون سے بالا تر تصور کرتے ہیں، ان کے بھینسوں کے باڑے کے باعث پریشانیوں کا شکار ہیں، ان کے خلاف فوری قانونی کارروائی کی جائے تاکہ علاقہ مکینوں کو صحت کے مسائل اور دیگر پریشانیوں سے نجات مل سکے۔ علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ بلدیاتی ادارے اس قدیم ترین مارکیٹ پر اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے اسے خستہ حالی سے نجات دلائیں اور صفائی ستھرائی کے انتظامات کو بہتر بنائیں تاکہ یہ مارکیٹ بحال ہو سکے۔
سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے دورے کے موقع پر صدر مملکت، مولانا بشیر فاروقی، عارف لاکھانی و دیگر کا خطاب
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) اسلام نے ضرورت مندوں لوگوں کی مدد کو عبادت کا درجہ دیا ہے اور تمام انسانوں کو رہنمائی فراہم کی ہے، پاکستان بالخصوص کراچی کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں بے شمار فلاحی پروگرام اور منصوبے مخیر حضرات چلا رہے ہیں اور لاکھوں لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ بات صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ روز سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے دورے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ٹرسٹ کے سرپرست مولانا بشیر فاروقی، صدر عارف لاکھانی، افضال چامڈیا، ضیاءالاسلام اور محمد غزال نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکڑ عارف علوی نے کہا کہ حکومت سیلانی ویلفیئر کی خدمات کو سراہتی ہے اور پورے ملک میں ادارے نے خدمت کی ایک منفرد مثال قائم کی ہے اور بالخصوص نوجوانوں کو روزگار، تکنیکی تربیت، صحت اور خوراک کی فراہمی نے غریب لوگوں کی زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ قبل ازیں صدر مملکت نے ٹرسٹ کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہیں ٹرسٹ کی کارکردگی سے آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پر مولانا بشیر فاروقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیلانی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نوجوانوں کا بڑا تربیتی پروگرام شروع کیا ہے اور ابھی 17500نوجوانوں کا ٹیسٹ لیا گیا ہے جس میں سے13400نوجوانوں کو صلاحیت کی بنیاد پر تربیتی پروگرام کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے، اس کے علاوہ روزانہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو کھانا، ہزاروں کو صحت کی سہولیات، راشن پہنچایا جا رہا ہے اور اب سیلانی ویلفیئر فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں اپنی شاخیں قائم کر رہی ہے۔
کھیل ایسی مصروفیت ہے جس کے ذریعے ہم اپنی تیز تر پیشہ ورانہ زندگی میں سے کچھ وقت نہ صرف اپنی ذات کے لیے نکال لیتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بھی مل لیتے ہیں، وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کا اوجھا کیمپس میں واقع جمنازیم میں سالانہ اسپورٹس ویک کی افتتاحی تقریب سے خطاب
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) ڈاﺅ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ کھیل ایسی مصروفیت ہے جس کے ذریعے ہم اپنی تیز تر پیشہ ورانہ زندگی میں سے کچھ وقت نہ صرف اپنی ذات کے لیے نکال لیتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بھی مل لیتے ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے منگل کی صبح اوجھا کیمپس میں واقع جمنازیم میں سالانہ اسپورٹس ویک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلرز پروفیسر محمد مسرور، پروفیسر خاور سعید جمالی، پروفیسر زرناز واحد، رجسٹرار ڈاﺅ یونیورسٹی پروفیسر امان اللہ عباسی، ڈائریکٹر اسپورٹس پروفیسر مکرم علی، ڈاﺅ میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر کرتار ڈوانی، ڈائریکٹر فنانس ندیم شکور جویری، پروفیسر نبیلہ سومرو، پروفیسر سنبل شمیم، پروفیسر امرینہ قریشی اور ڈاکٹر شوکت علی سمیت سینئر فیکلٹی ممبرز اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ ہر سال کھیلوں کی اس سرگرمی کے ذریعے ہم اپنے طلبہ کے مابین باہمی میل جول اور سماجی تعلقات کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ صحت مند سرگرمیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے تعارف حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ اسپورٹس ویک کے دوران کچھ لوگ جیتیں گے اور بعض ہار بھی جائیں گے، ہارنے والے حوصلہ نہ ہاریں بلکہ نئے عزم کے ساتھ اگلی فتح کی تیاری کریں اور جیتنے والے آئندہ مقابلوں میں اپنی کام یابی برقرار رکھنے کے لیے مزید محنت کریں۔ اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے بہترین مقابلوں کے انعقاد پر ڈائریکٹر اسپورٹس پروفیسر سید مکرم علی اور ان کی ٹیم کی تعریف کی۔ پروفیسر سید مکرم علی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاﺅ یونیورسٹی کے13انسٹی ٹیوٹس کے درمیان مقابلوں میں 3000 طلبہ و طالبات پر مشتمل ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، آج اسپورٹس ویک کے باضابطہ آغاز سے پہلے بھی سائیڈ میچز کھیلے گئے، اس طرح یہ سرگرمی اپنی تقریب تقسیم انعامات تک پورے ایک ماہ پر محیط ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 5 کوآرڈی نیٹرز،17 ایونٹ انچارج،36 فوکل پرسنز ان مقابلوں کا انعقاد ممکن بناتے ہیں۔ بعد ازاں پروفیسر محمد سعید قریشی نے ربن کاٹ کر سالانہ اسپورٹس ویک کا رسمی افتتاح کیا جب کہ تقریب کے آخر میں وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے اسپورٹس ویک کی کام یابی میں کردار ادا کرنے والے ہیڈ آف انسٹی ٹیوٹس سمیت دیگر اساتذہ میں شیلڈز تقسیم کیں۔
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ انڈیا کے جنگی طیاروں نے منگل کو علی الصبح پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستانی طیاروں کے فضا میں آنے کے بعد وہ جلدبازی میں اپنا ’پے لوڈ‘ گرا کر واپس چلے گئے۔
ادھر انڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے ایک ’غیر عسکری‘ کارروائی میں بالاکوٹ کے علاقے میں واقع کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں بتایا کہ انڈین فضائیہ کے طیاروں نے مظفر آباد کے پاس لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، لیکن پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں وہ واپس چلے گئے۔
میجر جنرل آصف غفور نے یہ دعویٰ بھی کیا پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں انڈین فضائیہ کے طیاروں نے اپنا 'پے لوڈ' (جہاز پر موجود گولہ بارود) بالاکوٹ کے نزدیک گرا دیا، لیکن اس سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔
فوجی ترجمان کی پہلی ٹویٹ پاکستانی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے کے قریب کی گئی جس میں انھوں نے کہا کہ انڈین طیاروں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کی تفصیلات سے جلد آگاہ کیا جائے گا۔
Indian aircrafts intruded from Muzafarabad sector. Facing timely and effective response from Pakistan Air Force released payload in haste while escaping which fell near Balakot. No casualties or damage.
اس کے کچھ دیر بعد ترجمان نے اپنے دیگر پیغامات میں اس واقعے کی مزید تفصیلات دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈین طیارے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے مظفرآباد سیکٹر میں تین سے چار میل اندر آئے۔ میجر جنرل آصف غفور کے مطابق چونکہ انڈین طیاروں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا تو انھوں نے اپنا گولہ بارود گرا دیا جو ایک کھلے علاقے میں گرا۔
فوجی ترجمان کے مطابق یہ گولہ بارود نہ تو کسی عمارت پر گرا اور نہ ہی اس سے کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔
خیال رہے کہ یہ سنہ 1971 کے بعد پہلا موقع ہے کہ انڈین جنگی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ انڈین طیاروں نے اپنا اسلحہ اور اضافی سامان کس مقام پر گرایا تاہم اس وقت بالاکوٹ اور مانسہرہ کے درمیان جابہ ٹاپ کے علاقے میں سکیورٹی اداروں کا سرچ آپریشن جاری ہے اور اس پورے علاقے میں ہائی الرٹ ہے
صحافی زبیر خان کے مطابق ضلع مانسہرہ کے علاقوں بالاکوٹ، گڑھی حبیب اﷲ، جابہ کے مقامی شہریوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے منگل کی صبح تین سے چار بجے کے درمیان چار سے پانچ زوردار دھماکوں کی آوازیں سنیں۔
بالاکوٹ اور مانسہرہ کے تھانوں کے اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ تین اور چار بجے کے درمیان عوام نے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں اور لوگ ٹیلی فون کر کے تھانے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
Indian aircrafts’ intrusion across LOC in Muzafarabad Sector within AJ&K was 3-4 miles.Under forced hasty withdrawal aircrafts released payload which had free fall in open area. No infrastructure got hit, no casualties. Technical details and other important information to follow.
تھانہ بالاکوٹ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چار بجے کے قریب مانسہرہ اور بالاکوٹ کی حدود میں واقع جابہ ٹاپ پر دھماکوں اور طیاروں کی نچلی پرواز کی آوازیں سنائی دی گئیں تاہم جب پولیس اہلکار جابہ ٹاپ پر پہنچے تو وہاں پہلے ہی سے سکیورٹی اہلکار موجود تھے جنھوں نے انھیں واپس بھیج دیا۔
انڈین فضائیہ کا جیشِ محمد کے کیمپ پر بمباری کا دعویٰ
دہلی میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق انڈین سیکریٹری خارجہ وجے گوکھلے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن میں منگل کی صبح انڈیا نے بالاکوٹ میں واقع جیشِ محمد کے سب سے بڑے کیمپ پر حملہ کیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انڈیا کو لاحق ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر جیشِ محمد کے کیمپ پر کی گئی کارروائی ایک ’غیر عسکری‘ کارروائی تھی اور خواہش تھی کہ شہری ہلاکتوں سے بچا جائے۔
ان کے مطابق یہ حملہ گھنے جنگل میں واقع پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک کیمپ پر کیا گیا جو شہری آبادی سے کافی دور تھا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس آپریشن میں بڑی تعداد میں جیشِ محمد کے ’دہشت گرد‘، تربیت دینے والے، سینیئر کمانڈرز اور جہادیوں کے گروہ جو فدائی حملوں کے لیے تیار کیے جا رہے تھے ہلاک کر دیے گئے۔
تاہم انڈیا کی جانب سے تاحال اس کارروائی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔
انڈین سیکریٹری خارجہ کا دعویٰ تھا کہ بالا کوٹ میں واقع کیمپ مولانا یوسف اظہر عرف استاد غوری جو کہ جیشِ محمد کے امیر مسعود اظہر کے داماد ہیں چلا رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کو بارہا معتبر اطلاعات اور انٹیلیجنس دی گئی کہ دہشت گرد اس کی سرزمین استعمال کر رہے مگر پاکستان کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اس لیے انڈیا نے فیصلہ کیا کہ اب ممکنہ حملے کو ٹالنے کے لیے جیشِ محمد کے خلاف ایک غیر عسکری کارروائی کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
انڈین فضائیہ یا وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک اس کارروائی کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے انڈین فضائیہ کے حوالے سے کہا ہے کہ میراج جنگی طیاروں نے ’کنٹرول لائن کے پار دہشت گردی کے ایک بڑے کیمپ کو تباہ کیا ہے۔‘
اے این آئی کے مطابق منگل کی صبج ساڑھے تین بجے انڈین فضائیہ کے 12 میراج 2000 طیاروں نے ایل او سی کے پار ایک بڑے ’دہشت گرد کیمپ‘ پر بمباری کی اور اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا ۔
خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں ایک ہزار کلو گرام وزنی بم استعمال ہوئے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کارروائی کے بعد پالیسی بیان میں کہا ہے کہ انڈیا نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان اپنے دفاع میں جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔
اوڑی حملہ اور سرجیکل سٹرائکس
یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈیا کی جانب سے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے کسی واقعے کے بعد ایل او سی کے پار کارروائی کا دعویٰ کیا گیا ہو۔
پلوامہ حملہ اور پاکستان پر الزام
14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے اس خود کش حملے میں انڈیا کے نیم فوجی دستے سی پی آر ایف کے 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروپ جیش محمد نے قبول کی تھی۔ پلوامہ حملے کے کچھ دیر بعد جیش محمد کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں مبینہ حملہ آور، عادل ڈار نامی ایک نوجوان کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم و بربریت کے بارے میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔
انڈیا کی جانب سے 14 فروری کو ہونے والے واقعے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا لیکن پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔
انڈیا کی جانب سے لگائے گئے الزام کے نتیجے میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے 19 فروری کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کو پلوامہ میں نیم فوجی اہلکاروں پر ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر انڈیا نے پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی تو پاکستان اس کا منھ توڑ جواب دے گا۔
ستمبر 2016 میں ایل او سی کے قریب شمالی کشمیر کے قصبے اُوڑی میں ایک فوجی چھاؤنی پر ہونے والے مسلح حملے میں 20 فوجیوں کی ہلاکت کے دس روز بعد انڈیا نے پاکستان کی حدود میں ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کا دعوی کیا، تاہم پاکستان نے اس کی تردید کی تھی۔
لائن آف کنٹرول کی یہ حالیہ خلاف ورزی بھی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات پلوامہ خودکش حملے کے بعد تقریباً دو ہفتوں سے انتہائی کشیدہ ہیں۔
اس کے بعد 22 فروری کو پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ جب بھی پاکستان میں کچھ اہم واقعات ہونے والے ہوتے ہیں تو انڈیا یا کشمیر میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا انڈیا کو سوچنا چاہیے کہ آخر کشمیریوں میں موت کا خوف کیوں ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے انڈیا کی جانب سے فوری الزامات کا جواب دینے کے لیے کچھ وقت لیا کیونکہ ہم اپنی تحقیقات بھی کرنا چاہتے تھے۔
کشمیر میں سکیورٹی تنصیبات پر ہائی الرٹ
سری نگر میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق وادی میں انڈین فوج اور نیم فوجی اداروں کی تنصیبات پر منگل کی صبح حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کرتے ہوئے ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔
یہ ہدایات انڈین فضائیہ کے پاکستان میں فضائی حملوں کے فوراً بعد جاری کی گئیں۔ نامہ نگار کے مطابق سرینگر اور پونچھ کے اضلاع میں رات بھر جنگی طیارے بھی پرواز کرتے رہے جس سے لوگ خوفزہ ہو گئے۔
ادھر وادی میں علیحدگی پسندوں کے خلاف حکومت کے کریک ڈاؤن میں بھی تیزی آئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے این آئی اے نے منگل کی صبح میر واعظ عمر فاروق کے گھر پر چھاپہ مارا۔ یاسین ملک اگرچہ پہلے ہی پولیس حراست میں ہیں تاہم این آئی اے اہلکاروں نے لال چوک میں واقع ان کے گھر پر بھی منگل کو چھاپہ مارا۔ (بہ شکریہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام)
اظہر اقبال کی شان د ار آل راونڈ پرفارمنس 5 وکٹ اور 64 رنز کی لاجواب اننگز کی بدولت مین آف دی میچ قرار پائے
روزمرہ کے معمولات زندگی میں ہماری جسمانی صحت کے لیے کھیل ضروری ہے۔ ایچ آر ایم کے ڈویژنل ہیڈ جلیل احمد طارق کا بطور مہمان خصوصی خطاب
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) نیشنل بینک ایچ آر ایم کے ڈویژنل ہیڈ جلیل احمد طارق نے کہا ہے کہ روز مرہ کے معمولات زندگی میں ہماری جسمانی صحت کے لیے کھیل ضروری ہے تاکہ ہم اپنا کا م بخوبی سر انجام دے سکیں۔ یہ بات انہوں نے نیشنل بینک اسپورٹس کمپلیکس پر جاری چوتھے نیشنل بینک پریذیڈنٹ کپ ٹی20 انٹر گروپ کر کٹ ٹورنامنٹ کے موقع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے کھلاڑیوں اور منتظمین سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے مزیدکہا کہ نیشنل بینک اسپورٹس ڈپارٹمنٹ جس طرح شوکت محمود خٹک اور اقبال قاسم کی سرپرستی میں کام اور پورے پاکستان میں کھیلوں کی سرگرمیوں کی مدد کر رہا ہے قابل ستائش ہے۔ اس موقع پر انور فاروقی، عظمت اللہ خان، سعید آزاد، ابوذر امراﺅ اور دیگر موجود تھے۔ جلیل احمد طارق کا کھلاڑیوں سے تعارف کرایا گیا اور آخر میں جلیل احمد طارق نے مین آف دی میچ ایوارڈ دیا۔ نیشنل بینک اسپورٹس کمپلیکس پر کھیلے گئے میچ میں لاجسٹک لائنز نے سی بی جی واریرز کو 103 رنزسے بآسانی شکست دے دی۔ اظہر اقبال کی شان دار آل راونڈ پرفارمنس5 وکٹ اور 64 رنز کی لاجواب اننگز کی بدولت مین آف دی میچ قرار پائے۔ لاجسٹک لائنز نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ اوورز میں5 وکٹوں پر 236 رنز اسکور کیا۔ فرحان رفیق نے11 چوکوں کی مدد سے51 گیندوں پر77 رنز، اظہر اقبال نے4 چوکوں4 چھکوں کی مدد سے 64 رنز، سلمان میمن نے8 چوکوں2 چھکوں کی مدد سے 23 گیندوں پر51 رنز کی اننگز کھیلی جب کہ راجہ نجفی، دانش نقوی، جعفر حسین اور فہیم اکبر نے1-1 وکٹ حاصل کی۔ جواب میںسی بی جی واریرز 3 اوورز قبل 133 رنز پر ڈھیرہوگئی۔ ظہیر نے3 چوکوں کی مدد سے22 گیندوں پر 32 رنزبنائے۔ اظہر اقبال نے تباہ کن بولنگ کرتے ہوئے 22 رنز دے کر5، شاہد مشتاق نے18رنز دے کر2 کھلاڑیوں کو آو ¿ٹ کیا۔ دریں اثنا گروپ ڈی سے لاجسٹک لائنز اور سی آر بی جی نے کوارٹر فائنل کے لیے کوالیفائی کر لیا ہے۔ ریفری محمد جاوید امپائرز کے اعلیٰ حیدر اور عرفان حبیب جب کہ اسکورر کے فرائض سید افراسیاب عالم نے سرانجام دیے۔
ریٹائرڈ ملازمین کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا، ملازمین کسی بھی ادارے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، سینئرز کی خدمات قابل تحسین ہیں، چیئرمین بلدیہ شرقی معید انور
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) چیئرمین بلدیہ شرقی معید انور نے کہا ہے کہ کسی بھی ادارے کے لیے ملازمین ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور کسی بھی ادارے کو بہترین افرادی مشینری کے بغیر چلانا مشکل ترین امر ہے، سینئر ملازمین اداروں کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے میونسپل کمشنر اختر علی شیخ، سپرنٹنڈنگ انجینئر طارق مغل و ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن خورشیدعلی کے ساتھ جمشید زون محکمہ ایڈمنسٹریشن کے ریٹائرڈ ملازمین کے اعزاز میں الوداعی تقریب کے انعقاد کے موقع پر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریٹائرڈ ملازمین کو ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور ان سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے تجربے سے وقتاً فوقتاً ملازمین کو مستفید کرتے رہیں گے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی سمیت پینشن شروع کروانے کے حوالے سے اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ ریٹائرڈ ملازمین میں اخلاق احمد، عطا محمد، حیدر زمان اور محمد صادق شامل ہیں جو محکمہ ایڈمنسٹریشن کے اہم عہدوں پر فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
اس خاموش بیماری کو آگاہی اور سرجری کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے، آغا خان اسپتال میں واک اور ورکشاپ سے ڈاکٹر احسان باری، ڈاکٹر شہزاد و دیگر کا خطاب
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان میں پارکنسننر کی بیماری میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور مریضوں کی تعداد 450,000 ہو چکی ہے اور ان میں بیشتر مریضوں کو اس بیماری کے علاج کے بارے میں معلومات ہی نہیں ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے گزشتہ روز آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے زیر اہتمام پارکنسنز کے حوالے سے آگاہی واک اور ورکشاپ کے دوران کیا۔ اس پروگرام کا انعقاد ہر سال پاکستان پارکنسنز سوسائٹی کے تعاون سے کیا جاتا ہے۔ پارکنسنز کی بیماری خاموشی کے ساتھ مریضوں کے دماغ سے داخل ہوتی ہے اور کئی مریضوں میں اس کے اثرات کئی عرصے بعد معلوم ہوتے ہیں جس کی وجہ سے مریض کی حالت تشویش ناک ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال میں ضروری ہے کہ اس بیماری کے بارے میں لوگوں کو آگاہی فراہم کی جائے تاکہ بیماری کی بر وقت تشخیص سے علاج کو ممکن بنایا جا سکے۔ ڈیپ برین اسیمولیشن (ڈی بی ایس) کے ذریعے چلنے پھرنے میں دشواری، تھکن، ٹریمر کے اثرات میں کمی ممکن ہے۔ کام یاب ڈی بی ایس کے ذریعے مریض دواﺅں کے بغیر بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ ڈی بی ایس ایک سرجری کے عمل کے ذریعے دماغ کے اس حصے کو سگنل دیتا ہے جس کے ذریعے انسان چلتا پھرتا ہے اس کا کام دل کی بیٹری کی طرح کا ہوتا ہے۔ اس موقع پر گفتگوکرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر نیورو سرجری ڈاکٹر احسان باری نے کہا کہ پارکنسنز کا علاج سرجری اور آگاہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس موقع پر سروس لائن چیف مائنڈ اینڈ برین اے کے یو ایچ ڈاکٹر شہزاد سلیم نے کہا کہ پارکنسنز کی بیماری کے ساتھ مشکل ہوتا ہے لیکن ایسے بہت سے طریقے موجود ہیں جن کے ذریعے آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مریض ہمارے دل کے بہت قریب ہوتے ہیں اور یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کے جینے کے طریقے کو آسان کرنے میں ان کی مدد کریں۔ اس سال واک کے ساتھ ایک پینل ڈسکشن کے بھی انعقاد کیا گیا تھا جس میں ماہر نیورو سرجن، نیورولوجسٹ اور دیگر ماہرین نے شرکت کی اور شرکاءکے سوالوں کے جواب بھی دیے اور 100روپے کے عوض چیک اپ بھی کیا۔
ملبے سے اسکول یونیفارم پہنے ایک بچے سمیت5 افراد کو نکال کر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، عمارت میں چار فیملیز رہائش پذیر تھیں، علاقہ مکین
گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ کی عمارت گرنے کے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو خود حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) شہر قائد کے علاقے ملیر جعفر طیار سوسائٹی میں4 منزلہ عمارت گر گئی جس کے نتیجے میں2 خواتین سمیت3 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں۔ حادثے کے بعد پاک فوج کا دستہ بھی جائے وقوع پر بھاری مشینری کے ساتھ پہنچا اور ریسکیو کا کام شروع کیا۔ گورنر سندھ اور وزیر اعلیٰ سندھ نے عمارت گرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو خود حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کی۔ تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے جعفر طیار سوسائٹی میں پیرکی صبح ساڑھے7 بجے30 سال پرانی4 منزلہ عمارت زمین بوس ہوگئی، جس کے نتیجے میں3 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ ملبے سے اسکول یونیفارم پہنے ایک بچے سمیت5 افراد کو نکال کر اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ جاں بحق ہونے والے شخص کی شناخت55 سالہ حسن عباس کے نام سے ہوئی۔
اسپتال انتظامیہ کے مطابق تینوں زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ علاقہ مکینوں کے مطابق عمارت میں چار فیملیز رہائش پذیر تھیں۔ جن میں سے دو فیملیز گھر پر موجود نہیں تھیں۔ عمارت گرنے کا واقعہ پیر کی صبح سویرے پیش آیا۔ جس کے فوری بعد علاقہ مکینوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو کا کام شروع کر دیا۔ پولیس اور رینجرز کے جوان بھی علاقے میں پہنچ گئے اور لوگوں کو جائے حادثہ سے دور رکھنے کی کوشش کی تاکہ ریسکیو کے کاموں میں مشکلات پیش نہ آئیں۔ حادثے کے بعد پاک فوج کا دستہ بھی جائے وقوع پر بھاری مشینری کے ساتھ پہنچا اور ریسکیو کا کام شروع کر دیا۔ علاقہ مکینوں کے مطابق عمارت30 سال پرانی تھی اور96 گز کے رقبے پر تعمیر کی گئی تھی۔ ملیر سٹی پولیس کے مطابق جعفر طیار سوسائٹی میں علم دار مسجد و امام بارگاہ کے سامنے پنجتن پاک نامی4 منزلہ رہائشی عمارت پیر کی صبح ساڑھے سات بجے زمیں بوس ہوگئی۔ ملبے تلے دب کر مالک مکان اور ایک خاتون جاں بحق ہوگئے جب کہ ایک بچے سمیت5 زخمیوں کو ملبے سے نکال لیا گیا ہے۔ جائے وقوع سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک فیملی حادثے کے وقت عمارت میں نہیں تھی۔ ملیر سٹی تھانے کے ایس ایچ او انسپکٹر شاکر حسین نے بتایا کہ عمارت میں کم از کم چھ خاندان رہائش پذیر تھے۔ جس وقت یہ حادثہ پیش آیا تمام افراد اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے عمارت گرنے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو خود حادثے کی جگہ پہنچ کر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرنے کی ہدایت کی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہر صورت انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے جب کہ مجھے عمارت گرنے کی تفصیلی رپورٹ بھی دی جائے۔ انہوںنے کہا کہ ملبے تلے دبے افراد کو فوری نکالنے کے انتظامات یقینی بنائے جائیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی واقعے کی رپورٹ طلب کر لی ہے۔ گورنر سندھ نے واقعے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ بلڈنگ قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا، عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہاکہ لوگوں کی جان بچانا حکومت کا کام ہے اور حکومت ہمیشہ رضا کاروں پر انحصار کرتی ہے، بیورو کریسی کی نااہلی کا ملبہ حکومت پر گرتا ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے کہا کہ تنگ گلیوں کی وجہ سے ہیوی مشینری کا جانا ممکن نہیں تاہم متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کر دی ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز آف پاکستان سے تعلق رکھنے والے نور الدین احمد نے میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ شہر میں تمام عمارتوں کی تعمیر کی منظوری اور نگرانی کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) ذمے دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرکیٹیکٹس، ایس بی سی اے میں عمارتوں کی تعمیر کا منصوبہ جمع کرواتے ہیں جس کے بعد ادارہ ماسٹر پلان کے تحت جانچ پڑتال کرتا ہے۔ نور الدین احمد نے بتایا کہ ماسٹر پلان میں سڑک کی چوڑائی، عمارت کی اونچائی اور دیگر معاملات دیکھے جاتے ہیں جب کہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ علاقے میں ریسکیو کی گاڑیاں، فائر فائٹرز کے ٹرک اور ہیوی مشینری کی جگہ ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج پیش آنے والے واقعے میں سڑک اتنی کشادہ نہیں تھی کہ ریسکیو کی گاڑیاں گزر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ملیر میں گرنے والی عمارت کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں لیکن ممکنہ وجہ ناقص تعمیر ہو سکتی ہے، کوئی بھی عمارت تعمیر کرنے سے قبل یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہاں کی زمین عمارت کا وزن برداشت کرسکتی ہے یا نہیں۔ ڈائریکٹر جناح اسپتال ڈاکٹر سیمی جمالی نے کہا ہے کہ اسپتال میں تمام تر انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔ کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریسکیو ادارے اور پولیس جائے وقوع پر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملبہ ایک طریقہ کارکے تحت ہٹایا جاتا ہے ایسے نہیں ہٹایا جاسکتا، کوشش ہے کہ ملبے تلے دبے تمام افراد کو نکالا جا سکے۔ کمشنر کراچی نے کہا کہ عمارت20 سے25 سال پہلے تعمیرکی گئی تھی، تنگ گلیوں کے باعث ہیوی مشینری پہنچانے میں مشکلات ہیں۔
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) ڈاﺅ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیرِ اہتمام سالانہ اسپورٹس ویک کا باضابطہ آغاز آج (26 فروری2019ءمنگل سے) ہو رہا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی اسپورٹس ویک کا افتتاح صبح دس بجے اسپورٹس جمنازیم اوجھا کیمپس میں کریں گے۔ ڈاﺅ یونیورسٹی طلبہ میں ہم نصابی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے سالانہ اسپورٹس ویک کا اہتمام کرتی ہے، جس میں یونیورسٹی کے13 انسٹی ٹیوٹس سمیت دیگر متعلقہ اداروں کی ٹیمیں مختلف مقابلوں میں شریک ہوتی ہیں۔ 13 انسٹی ٹیوٹس میں ڈاﺅ میڈیکل کالج، ڈاﺅ انٹرنیشنل میڈیکل کالج، ڈاکٹر عشرت العباد انسٹی ٹیوٹ آف اورل ہیلتھ سائنسز، ڈاﺅ انٹرنیشنل ڈینٹل کالج، ڈاﺅ ڈینٹل کالج، ڈاﺅ کالج آف فارمیسی، انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ مینجمنٹ، انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل کالج، انسٹی ٹیوٹ آف فزیکل میڈیسن اینڈ ری ہیبلی ٹیشن، انسٹی ٹیوٹ آف نرسنگ، ڈاﺅ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی، ڈاﺅ انسٹی ٹیوٹ ریڈیولوجی اور اسکول آف پبلک ہیلتھ شامل ہیں جب کہ اسپورٹس ویک کے دوران ہونے والے مقابلوں میں کرکٹ سمیت فٹ بال، ٹیبل ٹینس، اسکواش، باسکٹ بال، بیڈمنٹن، ٹگ آف وار، والی بال سمیت دیگر کھیل شامل ہیں۔
پروگرام کے تحت کینسر کے مریضوں کو ہر ممکن معاونت فراہم کی جائے گی
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) فائزر پاکستان لمیٹڈ (فائزر) نے آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور پیشنٹ بہبود سوسائٹی برائے آغا خان یونیورسٹی اسپتال (پی بی ایس) کے ساتھ شراکت داری قائم کر لی ہے۔ اس شراکت داری کا مقصد مالی وسائل کے بغیر اور دور دراز پس ماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے کینسر کے مریضوں کو معیاری تھراپی ٹریٹمنٹ تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ گیسٹرو انٹیسٹینل اسٹرومل ٹیومر(GIST)، میٹیسٹیک رینل سیل کارسینوما (MRCC) اور پینکریاٹک نیورو انڈوکرائن ٹیومرز (PNET) سے متاثرہ مریض اس شراکت داری سے مستفید ہوں گے۔ اس حوالے سے یونیورسٹی اسپتال کراچی میں معاہدے پر دستخط کرنے کی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ یہ شراکت داری فائزر کے مریضوں تک رسائی کے پروگرام ”مسیحا“ برائے کینسر مریضان کا حصہ ہے۔ آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے سی ای او ہنس کیڈ زیرسکی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آغا خان یونیورسٹی اسپتال ضرورت مند مریضوں کو علاج معالجے کی خدمات تک رسائی فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے جو مالی مشکلات کی وجہ سے محروم ہیں تاکہ وہ ہمارے اسپتال کے چارجز ادا کرنے کے قابل ہو سکیں، جو مریض مالی معاونت حاصل کرتے ہیں ان کا اتنا ہی خیال رکھا جاتا ہے جتنا دوسرے مریضوں کا رکھا جاتا ہے، گزشتہ سال ہم نے بہبود کے پروگراموں پر2.5 ارب روپے سے زائد خرچ کیے، ہمارے انکالوجسٹس اور دیگر ماہرین مریضوں کو بہترین دست یاب علاج معالجے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں اور ہم مزید مریضوں کے علاج معالجے کے لیے اپنی استعداد بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
فائزر پاکستان کے کنٹری منیجر سید وجیہہ نے اپنے پیغام میں کہا کہ ہمیں یہ اعلان کرتے ہوئے بڑی مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ ہم آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور پیشنٹ بہبود سوسائٹی کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے مریضوں کی رسائی کے پروگرام میں نمایاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، یہ معاہدہ ضروری ادویات تک رسائی نہ رکھنے والے مریضوں کی صحت عامہ اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے سرگرم اداروں کے درمیان تعاون کی بہترین مثال ہے۔ پی بی ایس کے صدر ندیم مصطفیٰ خان نے فائزر پاکستان کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ فائزر پاکستان جیسے ہمارے شراکت دار کینسر کی ادویات کی بڑی مقدار عطیہ کر کے مستحق مریضوں کی مدد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں، ہمیں جتنے زیادہ زکواة اور عطیات وصول ہوتے ہیں ہم اتنا ہی زیادہ ضرورت مند مریضوں کی خدمت کر سکتے ہیں۔ آغا خان یونیورسٹی اسپتال کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور سیکشن ہیڈ میڈیکل آنکالوجی ڈاکٹر عدنان اے جبار نے کہا کہ پاکستان جیسے کم متوسط آمدنی والے ممالک میں علاج معالجے میں تفریق ایک بڑا چیلنج ہے، آغا خان یونیورسٹی اسپتال اور فائزر کے ساتھ شراکت داری جیسے پروگرام کینسر کے مریضوں کو علاج معالجے میں فرق کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں جو بصورت دیگر اس سہولت سے استفادہ نہ کر سکتے ہوں۔
ظفر قریشی کی ”عالمی کہانیاں“، تقریب رونمائی میں غازی صلاح الدین، انوار احمد زئی، شاداب احسانی
آغا مسعود حسین، اخلاق احمد، ناہید سلطان مرزا، ندیم ہاشمی کا اظہار خیال
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) آرٹس کونسل میں بزم یاور مہدی کے تعاون سے امریکا میں مقیم معروف صحافی ادیب، مترجم ظفر قریشی سابق سیکریٹری کراچی پریس کلب کی ”عالمی کہانیاںوالیم 2 & 3“ کی تقریب رونمائی سے صدر محفل غازی صلاح الدین نے کہا کہ ادب کا عالمی ورثہ ترجمے سے ہی منتقل ہوتا ہے اگر ترجمہ نہ ہو تو عالمی ادب موجود ہی نہیں رہے گا، ظفر قریشی نے اسی عہد کے مختلف معاشروں میں لکھی جانے والی کہانیاں اُردو میں منتقل کر کے بڑا کام کیا ہے۔ انہیں ایک زبان کی نغمگی یا کاٹ دوسری زبان میں منتقل کرنے کا فن آتا ہے، میں آج صدر محفل تو ہوں مگر میر محفل یاور مہدی ہی ہیں۔ پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ انہوں نے اُن عالمی کہانیوں کو چنا ہے جو آنے والے وقت میں بڑے قلم کاروں کی کہانیاں کہلائیں گی۔ ڈاکٹر شاداب احسانی نے کہا کہ انہوں نے جو کام کیا ہے وہ بڑے جُنوں اور ہمت کا کام ہے ہمیں اب پاکستانی بیانیے کو بھی آگے بڑھانا ہوگا۔ اخلاق احمد نے کہا کہ ترجمہ ایک پُل ہوتا ہے جو دو تہذیبوں کو ملاتا ہے ان کی بیشتر کہانیاں تازہ ہیں جو موجودہ عہد کی تصویر ہیں۔ آغا مسعود حسین نے کہا کہ میں جن پانچ لوگوں کی خدمات کا معترف ہوں اُن میں ظفر قریشی بھی شامل ہیں، انہوں نے ہمیں دنیا بھر کے تخلیق کاروں کے کام سے آگاہ کیا ہے اور ایک بڑے خطے کو عالمی ادب سے روشناس کرایا ہے جس پر یہ ایوارڈ کے مستحق ہیں، انہوں نے مختلف معاشروں کو یک جا کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ ناہید سلطان مرزا نے کہا کہ انہوں نے امریکا میں بھی صحافت کے چراغ جلائے ہیں ان کے تراجم کسی تخلیق سے کم نہیں۔ ناظم تقریب ندیم ہاشمی نے کہا کہ یاور مہدی آج بھی پوری توانائی سے علمی، ادبی ٹیلنٹ کو اُجاگر کر رہے ہیں، آج کی146 ویں بڑی تقریب جس میں شہر کی قد آور شخصیات موجود ہیں اس کی گواہ ہیں۔ تقریب کی ابتداءسید محمد ابراہیم نے تلاوت کلام پاک سے کی۔ شہزاد احمد نے حمد باری تعالیٰ پیش کی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں ارباب علم و ادب کے ساتھ صادقہ صلاح الدین، خواجہ رضی حیدر، یوسف تنویر، عابد رضوی، پروفیسر سلطان احمد، یامین خان، مجاہد مرزا، ضیغم زیدی، شہزاد رفیع، نجم الدین شیخ، علم دار حیدر، فرحت سعید، سلطان نقوی، پروین سلطانہ صبائ، قادر بخش سومرو، مبشر میر، عبدالصمد تاجی نے بھی شرکت کی۔ مہمانوں کے لیے پُر تکلف عشائیے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
ترقیاتی کاموں کے حوالے سے تیزی لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، چیئرمین بلدیہ شرقی
روڈ کٹنگ کے معاملات پر سخت نگاہ ہے، ترقیاتی کاموں کو سبو تاژ کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا، معید انور
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) چیئرمین بلدیہ شرقی معید انور نے کہا ہے کہ ترقیاتی کاموں میں تیزی لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات بروئے کار لا رہے ہیں، ضلع شرقی کی یوسیز میں کم وسائل کے باوجود ترقیاتی کاموں کی رفتار بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے میونسپل کمشنر ایسٹ اختر علی شیخ، سپرنٹنڈنگ انجینئر طارق مغل، یوسی7 کے چیئرمین مستجاب انور، وائس چیئرمین رانا تنزیل کے ساتھ یوسی7 پی ای سی ایچ ایس میں سڑک کی تعمیر کے معائنے کے دوران کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترقیاتی کاموں میں معیار کو ترجیح دینے کے لیے افسران کو ہدایات جاری کی جا چکی ہیں، روڈ کٹنگ کے معاملات پر سخت نگاہ رکھی ہوئی ہے، ترقیاتی کاموں کو سبو تاژ کرنے کے عمل کو برداشت نہیں کیا جائے گا، عموماً راتوں رات سڑکوں کو کھودنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جنہیں راتوں رات کھود کر صبح تک بھر دیا جاتا ہے، ہر یوسی کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایسا کام ہوتا دیکھیں تو اس کی اطلاع دیں فوری کارروائی عمل میں لائیں گے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ جو سڑکیں تعمیر کے مراحل سے گزر رہی ہیں ان سڑکوں کی تعمیر سے قبل زیر زمین سہولیات فراہم کرنے والے اداروں کو آگاہ کیا جائے، روڈ کی تعمیر کے بعد سڑکوں کی کھدائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس موقع پر انہیں سڑک کی تعمیر کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ بھی دی گئی۔ دورے کے دوران بلدیہ شرقی کے افسران دیگر منتخب نمائندگان اور عوام کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس)بدین سے تعلق رکھنے والی ہندو فیملی نے اسلام قبول کر لیا۔ نو مسلم خاندان نے کہا ہے کہ وہ مذہب اسلام کی سچائی سے متاثر ہو کر اپنی رضا خوشی سے مسلمان ہوئے ہیں اور ان پر مسلمان ہونے کے لیے کسی قسم کا کوئی دباﺅ نہیں ہے۔ اسلام قبول کرنے والے خاندان میں ایک مرد جب کہ تین بچیاں اور ان کی ماں شامل ہیں۔ اسلام کی حقانیت سے متاثر ہو کر جمعہ کے روز جامع مسجد بطحیٰ میں علامہ غلام مرتضیٰ مصطفائی کے ہاتھوں تمام نمازیوں کے رو برو اپنے سابقہ ہندو مذہب کو چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔ اس موقع پر تمام نمازیوں نے مبارک باد پیش کی۔ اسلام قبول کرنے والے شخص کا سابقہ نام سومار تھا جبکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا نام عبداللہ رکھا گیا، ان کی زوجہ کا نام خدیجہ، بڑی بیٹی کا نام فاطمہ، منجھلی زینب اور سب سے چھوٹی بیٹی کا نام صفیہ رکھا گیا ہے۔
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ انسٹی ٹیو ٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں انفیکشن کی بیماریوں کے حوالے سے دو روزہ کانفرنس آج (جمعہ) ایس آئی یو ٹی کے اشتراک سے شروع ہو رہی ہے۔ جس کا اہتمام میڈیکل مائیکرو بائیولوجی اینڈ انفیکشن ڈیزیز سوسائٹی آف پاکستان (ایم ایم ڈی آئی ایس پی) طرف سے کیا گیا ہے، یہ سولہویں سالانہ کانفرنس ہے، جس میں اندرون و بیرون ملک سے انفیکشن اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے طبی ماہرین شرکت کر رہے ہیں۔ کانفرنس سے ایک روز قبل مختلف ورکشاپس منعقد کیے گئے جس میں طبی ماہرین نے انفیکشن سے پھیلنے والی بیماریوں، اسپتالوں میں انفیکشن مینجمنٹ کے اہم اقدامات، مریض کے لیے صاف ماحول، اینٹی بایوٹک ادویات کا غلط و بے جا استعمال اور اینٹی بایوٹک کے حوالے سے فارمیسی کا اہم کردار جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی۔ ان ورکشاپس میں ٹائی فائیڈ اور کانگو وائرس پر بھی اظہار خیال کیا گیا۔ ورکشاپ میں ڈاکٹروں کی بڑی تعداد کے علاوہ طبی عملے کی ایک بڑی تعداد شرکت کر رہی ہے۔ کل سے شروع ہونے والی اس کانفرنس میں طبی ماہرین دیگر موضوعات کے علاوہ ٹائی فائیڈ اور کانگو وائرس پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے اور صحت کے متعلقہ عملے کو بایو سیفٹی اور حفاظتی آلات کے استعمال کے بارے میں آگہی فراہم کریں گے۔ یاد رہے کہ ایم ایم ڈی آئی ایس پی کی بنیاد 1993ءمیں رکھی گئی تھی جو اپنے پچیس سال پورے کر چکی ہے۔ کانفرنس میںافتتاحی تقریب میں شریک ماہرین میں کانفرنس پیٹرن ان چیف اور ڈائریکٹر ایس آئی یوٹی پروفیسر ادیب الحسن رضوی، کانفرنس چیئر پرسن ڈاکٹر شہلا باقی، صدر ایم ایم ڈی آئی ایس پی پروفیسر عامر اکرام، ایم ایم ڈی آئی ایس پی کی بانی ڈاکٹر نسیم صلاح الدین شامل ہیں۔