Thursday, May 16, 2019

آپریشن کے پہلے روز 13 ہزار 3سو 19مربع گز زمین واگزار کروالی گئی،ڈی ایس ریلوے سید مظہر علی شاہ

ہماری پوری کو شش ہے کہ ہم 15روز میں سرکلر ریلوے کی زمین خالی کراکے سندھ حکومت کے حوالے کردیں، ریلوے کی زمین کو ہم ہر صورت خالی کر وائیں گے
Image result for ‫کراچی سرکلر ریلوے‬‎
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس)ریلوے کراچی سید مظہر علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر 15مئی سے ہم نے سرکلر ریلو ے کی زمین واگزار کرنے کے لیے آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ آپریشن کے پہلے روز 13 ہزار 3سو 19مربع گز زمین واگزار کروالی گئی ہیں، ہماری پوری کو شش ہے کہ ہم 15روز میں سرکلر ریلو ے کی زمین خالی کرکے سندھ حکومت کے حوالے کردیں،ریلو ے کی زمین کو ہم ہر صورت خالی کر وایں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کے روز ڈی ایس ریلوے آفس میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے آپریشن کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے کیا۔ اس موقع پر ڈی سی او ریلوے اسحاق بلوچ سمیت ریلوے کے دیگر افسران بھی موجود تھے۔ سید مظہر علی شاہ نے کہا کہ بدھ کو پہلے دن آپریشن کا آغاز ضلع شرقی، گلشن اقبال میں اردو کالج اسٹیشن کے مقام پر کیا گیا تھا، یہاں سے قریباً 3سو جھونپڑیاں اور پختہ تعمیرات گرا کر قبضہ کی گئی 13 ہزار 3سو 19مربع گز ریلوے کی زمین واگزار کروالی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کی زمینوں پر درجنوں مسئلے ہیں اگر ان سب کو حل کرنے بیٹھ گئے تو منصوبہ کبھی حتمی شکل اختیار نہیں کرے گا ہماری ترجیح اس وقت سرکلر ریلوے کی بحالی ہے تاکہ عوام کو اس کا فائدہ پہنچ سکے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے دو روٹ پلان تیار کیا ہے، جس کے پہلے روٹ پلان کے مطابق آپریشن کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں زمینوں پر قبضہ آج کا مسئلہ نہیں ہے، ہمار ی تر جیح زمین خالی کروا کر گاڑی چلانا ہے۔ ابھی ہم نے ضلع شرقی سے آپریشن کا آغاز کیا ہے اس کے بعد ضلع غربی اور دیگر اضلا ع کی طرف آپریشن کر یں گے، انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ، ریلوے انتظامیہ سمیت دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جوائنٹ آپر یشن کے ذریعے کراچی سرکلر ریلوے کی زمین خالی کرانے کے لیے سرگرم ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کے حوالے سے بہت زیادہ مسائل درپیش ہیں، سرکلر ریلوے کی بحالی سے عام عوام کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں جو ٹاسک ملا ہے وہ ایک قومی ٹاسک ہے۔ ہماری کوششوں سے سرکلر ریلوے کا منصوبہ بحال ہوتا ہے تو اس سے شہریوں کے ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوجائے گا۔ 2 روز سے سرکلر ریلوے کی زمین پر آپریشن جاری ہے، ہمیں کراچی سرکلر ریلوے کے لیے قریبا ساڑھے 11 ایکڑ زمین کو کلیئر کرنا ہے سوا 3 ایکڑ سرکلر ریلوے کی زمین ہم خالی کراچکے ہیں ہماری اس وقت سب سے پہلی ترجیح ریلوے کی زمین کو خالی کرانا ہے۔

Thursday, April 11, 2019

رعشہ لاعلاج مرض نہیں، بروقت تشخیص، مناسب توجہ اور علاج سے اس مرض کے تیزی سے بڑھنے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ماہرین دماغی و اعصابی امراض

محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ہمارے ملک میں رعشہ کے مریضوں کی تعداد قریباً ایک ملین سے کم ہے، طبی ماہرین کے مطابق دنیا میں اس وقت دس کروڑ لوگ رعشہ کی بیماری میں مبتلا ہیں، عورتوں کی نسبت ایک اعشاریہ پانچ مرد حضرات اس مرض کا شکا ر ہیں
نیورو لوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاﺅنڈیشن (نارف) کے زیر اہتمام پارکنسنز (رعشہ) کے عالمی دن کے موقع پر رعشہ کے علاج اور آگاہی سے متعلق سیمینار بیاد ہارون بشیر مرحوم کا انعقاد
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) پاکستان میں پارکنسنز (رعشہ) کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی صحیح تعداد کے متعلق مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں اس بیماری میں مبتلا لوگوں کی تعداد ایک ملین سے کم ہے، جن میں سے ایک بہت بڑی تعداد کو اپنے مرض کے متعلق کوئی آگاہی نہیں ہے، پاکستان میں رعشہ کے مرض میں مبتلا افراد زیادہ تر60 سال یا اس سے زائد عمر کے ہیں لیکن اس بیماری میں40 سے50 سال کی عمر کے افراد بھی مبتلا ہو جاتے ہیں، بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر رعشہ کے مریضوں کی تشخیص صحیح طور پر نہیں ہو پاتی اور اس بیماری کی علامات کو بڑھاپے کا ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار دماغی و اعصابی امراض کے ماہرین نے نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاو ¿نڈیشن (نارف) کے زیراہتمام منعقد پارکنسنز یا رعشہ کے عالمی دن کے موقع پر رعشہ کے علاج اور آگاہی سے متعلق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آگاہی سیمینار کا مقصد ڈاکٹروں اور عوام کی رعشہ کے مرض سے متعلق آگاہی اور ان میں اس مرض کی صحیح تشخیص کرنے کا ادراک پیدا کرنا ہے۔ آگاہی سیمینار سے نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاﺅنڈیشن (نارف) کے صدر پروفیسر محمد واسع شاکر، ڈاکٹر نادر علی سید چیئرمین پاکستان پارکنسنز سوسائٹی، ڈاکٹر عبدالمالک، ارشاد جان اور معروف صحافی وقار بھٹی نے خطاب کیا۔
 سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نام ور ماہر امراض دماغ پروفیسر ڈاکٹرمحمد واسع شاکر نے کہا کہ اس آگاہی سیمینار کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ پارکنسنز یا رعشہ کے عالمی دن کے موقع پر معالجین، مریضوں اور ان کی نگہداشت کرنے والوں کو آگاہی فراہم کی جائے اور انہیں اس قابل بنایا جائے کہ وہ رعشہ کے مرض میں مبتلا افراد کی نہ صرف صحیح تشخیص کر سکیں بلکہ اس کے علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مرض کے متعلق عوامی آگاہی بہت ضروری ہے جس میں جلد تشخیص اور مریضوں کو عام انسانوں کی طرح زندگی گزارنے کے قابل بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بیماری ہے جو بڑھاپے کا ردعمل نہیں لیکن یہ ایک قابل علاج مرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک زندگی بھر رہنے والا مرض ہے اور تمام عمر اس کا علاج جاری رہتا ہے اور علاج کے نتیجے میں لوگ عام زندگی گزار سکتے ہیں۔ پروفیسرڈاکٹر محمد واسع نے کہا کہ پاکستان میں اوسط عمر بڑھ گئی ہے اور یہ 60 سے65 سال تک پہنچ گئی ہے، عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ رعشہ کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہو گیا ہے، ساٹھ سے پینسٹھ سال کی عمر کے لوگوں میں سے دو فی صد کو رعشہ ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، اس مرض کی تشخیص کے لیے کسی ٹیسٹ کی ضرورت نہیں بلکہ حرکات و سکنات سے بآسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے، اس بیماری کے نتیجے میں پٹھے اکڑ جاتے ہیں اور حرکات و سکنات سست روی کا شکار ہو جاتی ہیں، اس کے علاج کے لیے دواؤں کے ساتھ ساتھ فزیو تھراپی اور تیمار داری بہت اہم ہوتی ہے، اس کی دوائیاں بآسانی مارکیٹ میں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے گروپس اور رعشہ کے مریضوں کی تعلیم اور نارمل زندگی گزارنے کے لیے مدد کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ایک خود مختار زندگی گزار سکیں۔ ڈاکٹر نادر علی سید چیئرمین پاکستان پارکنسنز سوسائٹی کا کہنا تھا کہ ایشیا میں رعشہ کے مریضوں کی بہت بڑی تعداد ہے جن کی اکثریت انڈیا، پاکستان اور قریبی ممالک میں موجود ہے لیکن بڑھتی ہوئی غربت کے باعث یہ بیماری بہت حد تک نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں50 فی صد سے زائد مریض ایسے ہیں جو پارکنسنز کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن ان کے مرض کی صحیح تشخیص ہی نہیں ہوئی اور نہ انہیں کبھی علاج کی سہولیات میسر آئیں۔ 
ڈاکٹر نادر علی سید کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں رعشہ کے مرض کے متعلق آگاہی اور اس کے علاج سے متعلق حکومتی اداروں سمیت دیگر کو فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے تاکہ عوام الناس میں اس مرض کے متعلق شعور پیدا کیا جا سکے جس سے ان کے اندر ان امراض سے لڑنے کا حوصلہ پیدا ہو۔ ارشاد جان ڈائریکٹر پاکستان پارکنسنز سوسائٹی اور معروف صحافی وقار بھٹی نے اس بات پر زور دیا کہ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں آگاہی و شعور پیدا کرنے میں میڈیا کا اہم کردار ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے اس وقت ہمارے ہاں خبروں کا معیار دوسرا ہے جس میں جرائم، بم دھماکوں یا اس طرح کی دوسری خبروں کو جگہ مل جاتی ہے جس کے نتیجے میں آگاہی اور شعور کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی میڈیا کو عوام الناس میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھی جا سکے۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نیورولوجی اویئرنیس اینڈ ریسرچ فاﺅنڈیشن (نارف) کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ ہم نارف کے تحت گزشتہ گیارہ سال سے رعشہ کے علاج اور آگاہی سے متعلق ملک بھر میں مختلف مواقع پر آگاہی پروگرامات منعقد کرتے رہے ہیں تاکہ اس معاشرے کو اس مرض کے متعلق آگاہی دے کر اس مرض پر قابو پانے میں مدد کی جا سکے جس سے اس کا مریض معاشرے کا ایک کارآمد فرد بن سکتا ہے۔ اس موقع پرڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ اس وقت ادویات کی قیمتوں میں گزشتہ چالیس سال میں سب سے زیادہ اضافہ کیا گیا ہے جو تشویش ناک صورت حال ہے اس سے مریضوں اور ان کی نگہہ داشت کرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ آسانی سے دستیاب ہوں۔ آگاہی سیمینار کے موقع پر رعشہ کے مریض بھی موجود تھے جو اس مرض سے لڑنے کے لیے پرعزم نظر آئے اور انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ رعشہ کے مرض میں مبتلا ہونے کے باوجود مناسب دیکھ بھال اور نگہداشت کے نتیجے میں روزمرہ کے معمولات ٹھیک طرح سے سرانجام دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادویات کے بروقت استعمال اور دیگر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے سے انسان نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔

Wednesday, April 10, 2019

ہلال احمر پاکستان سندھ برانچ کی جانب سے700 رجسٹرڈ تھر کے رہائشیوں میں نقدی اور صاف پانی کے لیے واٹر فلٹر پلانٹس کی تقسیم

پہلے مرحلے میں700 گھرانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت ہر رجسٹرڈ گھرانے کو ہر ماہ 18,400 ملیں گے تاکہ ان گھرانوں اور ان کے جانوروں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور اس حوالے سے شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے جدید طریقے سے ایزی پیسہ کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی جائے گی
کراچی (اسٹاف رپورٹر) ہلال احمر پاکستان سندھ برانچ کی جانب سے700 رجسٹرڈ تھر کے رہائشیوں میں نقدی اور صاف پانی کے لیے واٹر فلٹر پلانٹس تقسیم کیے گئے۔ تفصیلات کے مطابق چیئرمین ہلا ل احمر پاکستان ڈاکٹر سعید الٰہی اور سیکریٹری ہلال احمر سندھ کنور وسیم نے تھر کے700 رجسٹرڈ گھرانوں میں واٹر فلٹر پلانٹس تقسیم کیے۔ واٹر فلٹر پلانٹس اور نقدی ڈیزاسٹر ریلیف ایمرجنسی فنڈ کے تحت کی گئی جو ہلال احمر اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس کا مشترکہ منصوبہ ہے جس کے تحت پہلے مرحلے میں700 گھرانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا تھا۔ 
اس پروگرام کے تحت ہر رجسٹرڈ گھرانے کو ہر ماہ 18,400 ملیں گے تاکہ ان گھرانوں اور ان کے جانوروں کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور اس حوالے سے شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے جدید طریقے سے ایزی پیسہ کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی جائے گی۔ ہلال احمر سندھ کا عملہ اور رضا کار مستقبل میں تھری عوام کو قحط سالی سے بچاؤ کی تفصیلی رپورٹ بھی مرتب کرے گا جب کہ ہلال احمر سندھ صحت اور صفائی کے حوالے سے مقامی کمیونٹی کے لیے آگاہی سیشن منعقد کرائے گا جس کا مقصد خشک سالی سے متاثرہ لوگوں کی مد د کرنا ہے۔

Saturday, April 6, 2019

صحت عامہ کا مسئلہ ہمارا بنیادی حق ہے جس پر ہمارا آئین خاموش ہے، رکن سندھ اسمبلی نفیسہ شاہ

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے تحت ”یونیورسل ہیلتھ کوریج، ہر کسی کے لیے ہر جگہ“ کا کام یابی سے انعقاد
جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق رفیق پرویز ہود بھائی کو
 شیلڈ پیش کر رہے ہیں۔ اس موقع پر وائس چانسلر پرو وائس چانسلر ڈاکٹر لبنا انصاری بیگ بھی موجود ہیں
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) رکن سندھ اسمبلی نفیسہ شاہ نے کہا ہے کہ صحت عوام کا بنیادی حق ہے لیکن ہمارا آئین اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ ان خیالات کا اظہار نفیسہ شاہ نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں منعقد کی جانے والی صوبے کی پہلی ہیلتھ کانفرنس سے خطاب میں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شعبہ صحت میں ابھی بھی بہت سے شعبوں میں مزید کام درکار ہے اور ہم لوگ صحت کے مسئلے پر چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بطور رکن سندھ اسمبلی ان کو لگتا ہے کہ انہیں اس شعبے پر مزید توجہ دینی چاہیے۔ ہیلتھ کانفرنس جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں کام یابی سے منعقد کی گئی۔ کانفرنس کا مقصد عمومی طور پر لوگوں میں عوامی صحت کے حوالے سے شعور بیدار کرنا تھا۔ کانفرنس میں ماہر طبیعات ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، معاشی ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بھی مختلف سیشنز سے خطاب کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے اپنے لیکچر میں ہیلتھ سائنسز کے سلسلے میں قومی ترجیحات اور مستقبل کا لائحہ عمل کے حوالے سے مفصل گفتگو کی اور کئی نئی تجاویز بھی دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اگر اس س حوالے سے توجہ نہ دی گئی تو وہ وقت دور نہیں کہ ملک میں پانی کی قلت ہوجائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی شعور کی بیداری وقت کی اہم ضرورت ہے، ملک میں نئے میڈیکل کالجوں کا قیام قابل قدر ہے تاہم معیار تعلیم بھی بہتر ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اس موقع پر ماں اور بچے کی صحت اور اس کے معاشی اثرات پر گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، پوش علاقوں میں جہاں امیر لوگ ہوٹلوں میں ٹیبل کے انتظار میں لائن لگاتے ہیں وہیں غریب غربا کی لائن رات دو بجے کے بعد دیکھی جا سکتی ہے، ایسے حالات میں ملک کیسے اور کیوں کر ترقی کر سکتا ہے۔ صبح نو بجے سے شام چار بجے تک جاری رہنے والی کانفرنس میں بیک وقت آٹھ سیشنز ہوئے، جن میں ملک کے مایہ ناز ڈاکٹرز نے مختلف موضوعات پر روشنی ڈالی اور ساتھ ہی ستر سے زائد تحقیقی مقالے بھی پیش کیے گئے۔ ہیلتھ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر سید محمد طارق رفیع کا کہنا تھا کہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کا عزم عوامی فلاح و بہبود کو مد نظر رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرنا ہے، اپنا انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے قیام کا مقصد پبلک ہیلتھ کے شعبے میں خدمات انجام دینا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری امدادی ٹیمیں تھرپارکر اور ڈیپلو میں دودھ کے ڈبے تقسیم کرنے نہیں جاتیں بلکہ ہمارا مقصد ان علاقوں میں تربیتی پروگرام شروع کر کے دور رس نتائج حاسل کرنا ہوتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کوئی بھی پروگرام حکومتی سرپرستی کے بغیر آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر لبنیٰ بیگ کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد پبلک ہیلتھ کے شعبے میں دنیا بھر میں ہونے والی تحقیقات کا تبادلہ تھا تاکہ صوبہ سندھ میں اس حوالے سے ہونے والا کام دنیا کے سامنے آئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یونیورسل ہلتھ کیئر کا ہدف حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبے بھر کے متعلقہ لوگ ہیلتھ کیئر کے شعبے میں دل چسپی لیں۔

Saturday, March 30, 2019

ایف بی آر کی250 ارب کم وصولیاں، پیٹرولیم مہنگائی سے ہدف پورا کرنے کی کوشش

پیٹرول پر پہلے ہی30 سے35 فی صد اضافی وصول، قیمتیں بڑھنے سے حکومت کی آمدن میں اضافہ متوقع 
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) یکم اپریل سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں11 روپے فی لیٹر تک اضافے کی تیار کی گئی سمری حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولیوں کی ایک کوشش ہے، مالی سال کے پہلے نو ماہ میں ایف بی آر کو ہدف کے مقابلے میں اڑھائی سو ارب روپے خسارے کا سامنا ہے ، یکم اپریل سے شروع ہونے والے مالی سال 2018-19 ءکے آخری کوارٹر میں ٹیکس وصولیوں کے لیے سر توڑ کوششیں کی جائیں گی۔ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسز حکومت کے لیے سب سے زیادہ محاصل وصولیوں کا ذریعہ ہیں۔ پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں قریباً40 فی صد حصہ مختلف ٹیکسوں کا ہے۔ ایک لیٹر پیٹرول پر 17 فیصد کی شرح سے جنرل سیلز ٹیکس عائد ہے جب کہ10 روپے فی لیٹر کے حساب سے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل) نافذ ہے۔ علاوہ ازیں پیٹرول کی درآمد کے وقت کسٹم فیس بھی وصول کی جاتی ہے۔ ان ٹیکسزکے باعث عوام سے اضافی30 سے35 روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ساڑھے چار سے5 لاکھ ٹن تیل فروخت ہوتا ہے جس میں ملکی پیدا وار90 ہزار ٹن کے قریب ہے۔

Friday, March 29, 2019

واٹر بورڈ وزیر بلدیات سعید غنی کی ہدایات پر شہر میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے اہم اقدامات کر رہا ہے، ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اللہ خان

واٹر بورڈ کی بہتر حکمت عملی اور تقسیم فراہمی آب کے نظام میں باقاعدگی سے عمل درآمد کے باعث حب ڈیم میں پانی آنے کے بعد کراچی کے سب سے کثیر آبادی والے ضلع غربی میں پانی کی فراہمی میں80 فی صد بہتری آگئی ہے، ضلع غربی کے مختلف علاقوں میں 10سال بعد پانی کی آمد سے ان علاقوں کے باشندوں میں خوشی کی لہر ڈور گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی حلقہ پی ایس112 لیاقت علی اسکانی کی سربراہی میں ایم ڈی واٹر بورڈ انجینئر اسد اللہ خان سے ملاقات کے لیے آنے والے یوسی چیئرمینز، پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں کے وفد نے ایک اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔
کراچی ( نیوز اپ ڈیٹس) واٹر بورڈ کی بہتر حکمت عملی اور تقسیم فراہمی آب کے نظام میں باقاعدگی سے عمل درآمدکے باعث حب ڈیم میں پانی آنے کے بعد کراچی کے سب سے کثیر آبادی والے ضلع غربی میں پانی کی فراہمی میں80 فی صد بہتری آگئی ہے، ضلع غربی کے مختلف علاقوں میں 10سال بعد پانی کی آمد سے ان علاقوں کے باشندوں میں خوشی کی لہر ڈور گئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی حلقہ پی ایس112 لیاقت علی اسکانی کی سربراہی میں ایم ڈی واٹر بورڈ انجینئر اسد اللہ خان سے ملاقات کے لیے آنے والے یوسی چیئرمینوں، پیپلز پارٹی کے مقامی رہنماؤں کے وفد نے ایک اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ حب ڈیم میں پانی کی آمد کے بعد واٹر بورڈ نے بہتر حکمت عملی اپنائی ہے، شہر خصوصاً ضلع غربی میں پانی کی فراہمی میں80 فی صد بہتری آگئی ہے، ضلع غربی کی یوسی 21 اور 22 سمیت دیگر علاقوں میں جہاں 10سال سے پانی فراہم نہیں کیا گیا تھا وہاں پانی آرہا ہے جس سے علاقہ مکین خوش ہیں۔ انہوں نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے مطالبہ کیا کہ فراہمی آب کے نظام میں مزید بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈی واٹر بورڈ انجینئر اسد اللہ خان نے کہا کہ واٹر بورڈ وزیر بلدیات سعید غنی کی ہدایات پر شہر میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے اہم اقدامات کر رہا ہے، پورے شہر میں پانی کی منصفانہ تقسیم اور فراہمی کے لیے واٹر بورڈ دو روز میں فراہمی آب کے نئے شیڈول کا اعلان کردے گا جو تمام منتخب نمائندوں کو تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی آگاہی کے لیے مشتہر بھی کرایا جائے گا تاکہ کسی ابہام یا غلط فہمی کی گنجائش نہ رہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلع غربی خصوصاً مواچھ گوٹھ، کیماڑی، بلدیہ، کینپ، ماڑی پور، جاوید بحریہ، سرجانی، خدا کی بستی، لیاری ایکسپریس وے، بنارس اور اورنگی ٹاؤن کی آبادیوں کو پانی کی فراہمی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ انہوں نے اس موقع پر وفد کے مطالبے پر مذکورہ علاقوں کے نظام فراہمی آب میں مزید بہتری کے لیے متعدد منصوبوں کی منظوری بھی دی۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے اجلاس میں موجود واٹر بورڈکے انجینئرز اور افسران کو ابوہریرہ پمپ ہاو ¿س، الطاف نگر پمپ ہاؤس سمیت دیگر پمپ ہاؤس اور بوسٹنگ اسٹیشنز کی مشینوں کی تبدیلی، مرمت سمیت مختلف علاقوں میں غیر قانونی کنکشنز کے فوری خاتمے کی ہدایات بھی جاری کیں۔ علاوہ ازیں ضلع کے مختلف علاقوں میں وفد کی نشان دہی پر نکاسی آب کی صورت حال بہتر بنانے کے احکامات بھی دیے۔

عباسی شہید اسپتال کے ہاؤس آفیسرز اور پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کی کئی ماہ کی رکی ہوئی تنخواہیں فوری ادا کی جائیں، پیما

  ریٹائر ہونے والے ڈاکٹرز کی پینشن اورگریجویٹی کا مسئلہ حل کیا جائے، ان کو سنیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر ترقیاں دی جائیں اور صوبے کے دوسرے اسپتالوں کی طرح عباسی شہید اسپتال میں بھی ہیلتھ اسٹرکچر لاگو کیا جائے
یہ مطالبات پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کے صدر ڈاکٹر عبدالعزیز میمن، کراچی کے صدر ڈاکٹر عاطف حفیظ، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر کاشف شازلی اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سلطان نے عباسی شہید اسپتال کے ہنگامے دورے کے موقع پر عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کیے

کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) عباسی شہید اسپتال کے ہاؤس آفیسرز اور پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کی کئی ماہ کی رکی ہوئی تنخواہیں فوری ادا کی جائیں، ریٹائر ہونے والے ڈاکٹرز کی پینشن اورگریجویٹی کا مسئلہ حل کیا جائے، ان کو سنیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر ترقیاں دی جائیں اور صوبے کے دوسرے اسپتالوں کی طرح عباسی شہید اسپتال میں بھی ہیلتھ اسٹرکچر لاگو کیا جائے۔ یہ مطالبات پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سندھ کے صدر ڈاکٹر عبدالعزیز میمن، کراچی کے صدر ڈاکٹر عاطف حفیظ، جنرل سیکریٹری ڈاکٹر کاشف شازلی اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈی اے) کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سلطان نے عباسی شہید اسپتال کے ہنگامے دورے کے موقع پر عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹروں کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کیے۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ہاﺅس آفیسرز اور پوسٹ گریجویٹ ڈاکٹرز کی تنخواہیں جو کئی ماہ سے ادا نہیں کی گئی ہیں جلد از جلد انہیں ادا کرنے کیا جائے، ہم عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹرز کے تمام جا ئز مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، اگر انتظامیہ نے جلد از جلد عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹرز کے مسائل حل نہیں کیے تو تمام تر حالات کی سنگینی کی ذمے دار سٹی گورنمنٹ اور عباسی اسپتال کی انتظامیہ ہوں گی۔ اس موقع پر وائی ڈی اے سندھ کے کیبنٹ ممبرز اور چیئرمین ڈاکٹر عمر سلطان نے عباسی شہید اسپتال کے ڈاکٹرز کو یقین دہانی کروائی کہ وہ ہر فورم پر ان کے مسائل حل کرانے کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے عباسی شہید اسپتال کے مسئلے پر پیما کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے پیما کے ذمے داران کا خصوصی شکریہ ادا کیا کہ پیما ڈاکٹرز کمیونٹی کے لیے ہمیشہ بھرپور آواز بلند کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کمیونٹی دن رات مریضوں کی خدمت کرتی ہے اور المیہ ہے کہ ان کو وقت پر ان کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عباسی اسپتال کی انتظامیہ 15برسوں سے یہی کرتی آئی ہے اور جو ڈاکٹر ریٹائر ہوتے ہیں ان کی پینشن اور گریجویٹی بھی ادا نہیں کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیما اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے ذمے داران عباسی اسپتال کے ڈاکٹرز کے تمام جائز مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں اور اعلیٰ احکام سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد ڈاکٹرز کی تنخواہیں اور ریٹائر ہونے والے ڈاکٹرز کی پینشن اور گریجوٹی کا مسئلہ حل کیا جائے، ان کو سنیارٹی اور میرٹ کی بنیاد پر ترقیاں دی جائیں اور صوبے کے دوسرے اسپتالوں کی طرح عباسی شہید اسپتال میں بھی ہیلتھ اسٹرکچر لاگو کیا جائے۔

Saturday, March 23, 2019

بلدیہ وسطی میں یوم قرار داد پاکستان کی تقریبات کا انعقاد

چئیرمین ریحان ہاشمی نے پرچم کُشائی سے تقریبات کا افتتاح کیا
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) بلدیہ وسطی کراچی میں یومِ قرار داد پاکستان جوش و خروش سے منایا گیا۔ شاہراہ ابنِ سینا ناظم آباد پر واقع بلدیہ وسطی کے مرکزی دفتر میں یوم پاکستان کی پر وقار تقریب کا انعقاد ہوا۔ چئیرمین بلدیہ وسطی ریحان ہاشمی نے وائس چیئرمین سید شاکر علی کے ساتھ پرچم کشائی سے تقریب کا افتتاح کیا۔ بلدیہ وسطی کے تمام افسران و عملے نے مل کر بہ آواز بلند قومی ترانہ پڑھا جس سے فضاءمیں حب الوطنی کا ساز بج اُٹھا۔ اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے چئیرمین ریحان ہاشمی نے کہا کہ ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ءمحض یومِ قرار داد پاکستان ہی نہیں بلکہ قیام پاکستان کی تحریک کی کام یابی میں سب سے اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، یہ دن ہمیں یاد دلاتاہے کہ اپنے آبا و اجداد کی قربانیوںکے ثمر پاکستان کو ہمیشہ قائم و دائم اور پاکستانی عوام کو خوش حال رکھنے کے لیے ہم بھی کسی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ آج سرحدوں پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں تو ہمارے لیے پیغام ہے کہ ہم سب ایک مضبوط اور متحد قوم ہونے کا ثبوت دیں اور کسی بھی جارحیت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ تقریب میں وائس چیئرمین سید شاکر علی، میونسپل کمشنر محمد فہیم خان، ڈائریکٹر ایجوکیشن محمد عرفان شیخ، ڈپٹی ڈائریکٹر ابرار احمد کے علاوہ اسکولوں کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔ اس موقع پر دیگر مقررین نے بھی حاضرین سے خطاب کیا اور قرار داد پاکستان کی تاریخی اہمیت کو اُجاگرکرتے ہوئے نئی نسل کو پاکستان کی ترقی کے لیے حصول تعلیم کی جانب بھرپور توجہ دینے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر اسکولوں کے طلبہ و طالبات کے درمیان یوم پاکستان کے حوالے سے تقریری مقابلہ بھی ہوا جب کہ طلبہ و طالبات نے یومِ قرار داد پاکستان کی مناسبت سے خصوصی ٹیبلوز پیش کیے جن میں ملک و ملّت سے محبت کا عنصر نمایاں تھا۔ یاد رہے کہ 23مارچ 1940ء وہ دن ہے کہ جب بر صغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مُصمم اور پختہ ارادہ کیا کہ مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرنے کے سوا کوئی دوسری بات قبول نہیں کریں گے اور پھر تمام ہندوستان میں مسلمانوں نے یک زبان اور ایک متحد قوم بن کر انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف زبردست جدوجہد شروع کی جس کے نتیجے میں 14اگست 1947ءکو پاکستان عالم وجود میں آیا۔ ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد رکھنے کے لیے قومی نوعیت کے ہردن کو جوش و خروش سے منانا چاہیے۔ پروگرام کے آخر میں چیئرمین بلدیہ وسطی ریحان ہاشمی نے ٹیبلوز اور تقریری مقابلے میں حصہ لینے والے طلبہ و طالبات میں انعامات تقسیم کیے۔

Thursday, March 21, 2019

تعلیمی اداروں میں گریجویشن اور ماسٹرز کی سطح پر غذائیت کے حوالے سے ڈگری پروگرام شروع کیے جائیں, غذائی ماہرین

اسپتالوں میں غذائی ماہرین کی اسامیاں بڑھائی جائیں، پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے، پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک سوسائٹی کی رہنماؤں کی پریس کانفرنس 
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک سوسائٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں گریجویشن اور ماسٹرز کی سطح پر نیوٹریشن اور غذائیت کے حوالے سے ڈگری پروگرام شروع کیے جائیں، اسپتالوں میں غذائی ماہرین کی اسامیاں بڑھائی جائیں اور انہیں نوکریاں دی جائیں اور وفاقی سطح پر پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ اتائیوں اور غیر متعلقہ افراد کو غذائی امور پر قوم کو گم راہ کرنے سے بچایا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک سوسائٹی کی رہنماؤں نے کراچی پریس کلب میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پریس کانفرنس سے پی این ڈی ایس کی صدر رابعہ انور، سابق صدور ڈاکٹر نیلوفر فاطمی، فائزہ خان، صائمہ رشید، مزملہ مغل، شبنم رضی نے خطاب کیا۔
 پریس کانفرنس کے اختتام پر کراچی پریس کلب کے باہر واک بھی کی گئی جس میں پی این ڈی ایس کی اراکین اور طالبات نے شرکت کی۔ شرکاءنے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر غذائی اہمیت سے متعلق نعرے درج تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی این ڈی ایس کی سابق صدر اور ڈاؤ یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نیلوفر فاطمی کا کہنا تھا کہ سندھ میں38 فی صد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو ہنگامی طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نیوٹریشن کے حوالے سے گریجویشن اور ماسٹرز کی سطح پر ڈگری کورسز شروع کروائے جائیں، اساتذہ کی تعلیمی استعداد بڑھائی جائے جب کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ نیوٹریشن کو بطور ایک مضمون متعارف کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور اسکالر شپس کا اجراءکرے۔
 پی این ڈی ایس کی صدر رابعہ انور کا کہنا تھا کہ مارچ کا مہینہ ”نیوٹریشن ماہ“ کے حوالے سے منایا جا رہا ہے جس میں غذا کے ذریعے صحت کی آگاہی پھیلائی جا رہی ہے جب کہ دوسری طرف ان کی سوسائٹی اس بات پر کوشاں ہے کہ غذائی ماہرین کو ملکی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیٹک کونسل کا قیام عمل میں لائے، غذائیت پر سینیٹ اور قومی اسمبلی کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اور ملک میں غذائی کمی اور موٹاپے دونوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
 پی این ڈی ایس کی سابق صدر فائزہ خان نے کہا کہ تھر میں دو سال پہلے دو سو بچوں پر سروے کیا گیا تھا اور سروے کے ذریعے یہ بات سامنے آئی تھی کہ دو سو بچوں میں سے صرف دو بچوں نے اپنی زندگی میں پھل کھایا تھا، وہاں پینے کے صاف پانی کی شدید کمی ہے، جب تک وہاں غربت کے خاتمے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی نہیں ہوگی اس وقت تک تھرپارکرمیں غذائی صورت حال بہتر نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری اسپتالوں میں نیوٹریشنسٹ کی اسامیاں نہیں ہیں اور اگر ہیں تو وہاں تربیت یافتہ ڈائٹیشنز اور نیوٹریشنسٹ تعینات نہیں ہیں۔ صائمہ رشید کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ مرض ہونے کے بعد دواؤں کی صورت میں مالی بوجھ برداشت کیا جائے یا اپنا طرز زندگی بہتر بنا کر ان بیماریوں سے بچا جائے اور اس سے آپ پر مالی بوجھ بھی کم ہوگا، پاکستان کے25 فی صد بچوں کو کھانا میسر نہیں اور دوسری طرف موٹاپے کا شکار بچے ہیں، ہر پانچ میں سے ایک پاکستانی بلڈ پریشر اور ہر دس میں سے ایک پاکستانی ذیابیطس کا شکارہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنا طرز زندگی بہتر بنایا جائے۔

Tuesday, March 12, 2019

پاکستان کی15 سے20 فی صد آبادی پٹھوں اور جوڑوں کے امراض کا شکار ہے، ماہرین رہیماٹولوجی

پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کی 23 ویں سالانہ کانفرنس14 سے17 مارچ کو ریجنٹ پلازہ میں منعقد ہوگی جس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سمیت دنیا بھر سے ماہرین شرکت کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کی13ویں سالانہ کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر سید محفوظ عالم، پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر شکیل بیگ، ڈاکٹر احمد اقبال مرزا اور ڈاکٹر عظمیٰ ارم نے گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جوڑوں اور پٹھوں کے امراض (رہیماٹولوجی) کے ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان کی15 سے20 فی صد آبادی پٹھوں اور جوڑوں کے امراض کا شکار ہے جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں رہیماٹولوجسٹ کی تعداد محض60 کے قریب ہے، پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں رہیماٹولوجی ڈپارٹمنٹ موجود نہیں ہیں، غیر متوازن غذا، غیر صحت مند طرز زندگی اور سہل پسندی جوڑوں اور پٹھوں کے امراض کا سبب ہے۔ پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کی 23 ویں سالانہ کانفرنس14 سے17 مارچ کو ریجنٹ پلازہ میں منعقد ہوگی جس میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سمیت دنیا بھر سے ماہرین شرکت کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کی13ویں سالانہ کانفرنس کے کنوینر ڈاکٹر سید محفوظ عالم، پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر شکیل بیگ، ڈاکٹر احمد اقبال مرزا اور ڈاکٹر عظمیٰ ارم نے گزشتہ روز کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر سید محفوظ عالم نے کہا کہ غیر صحت مند طرز زندگی اور سہل پسندی کے سبب پاکستان میں جوڑوں اور پٹھوں کے امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، 
پاکستان کی 15سے 20 فی صد آبادی جوڑوں اور پٹھوں کے امراض میں مبتلا ہے جن میں سب سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں رہیماٹولوجسٹ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور22 کروڑ آبادی کے لیے محض 60 رہیماٹولوجسٹ ہیں، پاکستان کے کسی سرکاری اسپتال میں رہیماٹولوجی ڈپارٹمنٹ موجود نہیں ہے، حال ہی میں ہماری سوسائٹی کے ایک ڈاکٹر نے رہیماٹولوجی میں ایف سی پی ایس کیا ہے جس کے بعد جناح اسپتال میں رہیماٹولوجی ڈپارٹمنٹ شروع کیا گیا ہے اور جلد ڈاو اسپتال اور عباسی شہید اسپتال میں بھی رہیماٹولوجی ڈپارٹمنٹ کام کرنا شروع کر دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں صرف10فی صد بچے روزانہ دو گلاس دودھ پیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں مطلوبہ مقدار میں کیلشیم حاصل ہوتا ہے اور جو بچے دودھ نہیں پیتے یا دودھ پینے سے ہچکچاتے ہیں والدین کو چاہیے کہ انہیں کیلشیم کے گولیاں دیں۔ پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر شکیل بیگ کا کہنا تھا کہ جوڑوں اور پٹھوں کے امراض میں مبتلا افراد کو حکیموں اور سنیاسی بابوں کے بجائے ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کرنا چاہیے، غیر متوازن غذا اور غیر صحت مند طرز زندگی جوڑوں اور پٹھوں کے امراض کی سب سے بڑی وجہ ہے، عورتوں میں جوڑوں اور پٹھوں کے امراض کی سب سے بڑی وجہ موٹاپا ہے، خواتین کو ورزش اور وزن کم کرنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سوسائٹی فار رہیماٹولوجی کی23 ویں سالانہ کانفرنس14 سے17 مارچ کو ریجنٹ پلازہ میں منعقد ہوگی۔ کانفرنس میں صدر پاکستان عارف علوی کی شرکت متوقع ہے، کانفرنس میں یورپ، مڈل ایسٹ، امریکا اور برطانیہ سمیت دنیا بھر سے ماہرین شریک ہوں گے۔ کانفرنس کے پہلے روز پبلک ایویرنس سیشن منعقد ہوگا جب کہ ٹیکنیکل اور سائنٹیفک سیشنز بھی کانفرنس کا حصہ ہیں، کانفرنس میں شریک ڈاکٹروں کے لیے مشاعرے کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔

Monday, March 11, 2019

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ”ایکس ڈی آر، ٹائی فائیڈ اینڈ مینجمنٹ“ سیمینار کا انعقاد

 سیمینار کے مہمان خصوصی سیکریٹری ہیلتھ سندھ سعید اعوان تھے جب کہ دیگر مہمانان میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے سی ای او ڈاکٹر منہاج قدوائی، چیئرمین ایس ایچ سی سی پروفیسر ٹیپو سلطان، پروفیسر ڈاکٹر شہلا باقی ہیڈ آف انفیکشیز ڈیزیز شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کراچی، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فرح ناز قمر ڈپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ آغا خان یونیورسٹی اسپتال، ڈاکٹر سیما عرفان ڈپارٹمنٹ آف پیتھالوجی اینڈ مائیکرو بائیولوجی آغا خان یونیورسٹی اسپتال سمیت طب کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم طبی ماہرین شامل تھے۔ نظامت کے فرائض پی ایم اے کے مرکزی رہنماؤں ڈاکٹر قاضی واثق اور ڈاکٹر ایس قیصر سجاد نے انجام دیے
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے زیر انتظام ایک سیمینار ”ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ، اپ ڈیٹس اینڈ مینجمنٹ“ کے عنوان سے پی ایم اے ہاو ¿س کراچی میں منعقد کیا گیا۔ سیمینار کے مہمان خصوصی سیکریٹری ہیلتھ سندھ سعید اعوان تھے جب کہ دیگر مہمانان میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے سی ای او ڈاکٹر منہاج قدوائی، چیئرمین ایس ایچ سی سی پروفیسر ٹیپو سلطان، پروفیسر ڈاکٹر شہلا باقی ہیڈ آف انفیکشیز ڈیزیز شہید محترمہ بے نظیر بھٹو ٹراما سینٹر کراچی، ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر فرح ناز قمر ڈپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ آغا خان یونیورسٹی اسپتال، ڈاکٹر سیما عرفان ڈپارٹمنٹ آف پیتھالوجی اینڈ مائیکرو بائیولوجی آغا خان یونیورسٹی اسپتال سمیت طب کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اہم طبی ماہرین شامل تھے۔ نظامت کے فرائض پی ایم اے کے مرکزی رہنماوں ڈاکٹر قاضی واثق اور ڈاکٹر ایس قیصر سجاد نے انجام دیے۔ اس موقع پر سیکریٹری صحت سندھ ڈاکٹر سعید اعوان کا کہنا تھا کہ محکمہ صحت کی جانب سے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ بہت کام کیا جا رہا ہے اور اس حوالے سے محکمہ صحت بہت جلد متاثرہ علاقوں میں بچوں اور بڑوں کے لیے ماس ویکسی نیشن کا آغاز کرنے جا رہا ہے جس کی وجہ سے ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کی روک تھام میں مدد ملے گی۔ قبل ازیں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کی روک تھام کے احتیاطی تدابیر اور بچاو ¿ کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہوئے کراچی اور اندرون سندھ ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ بخار کے پھیلنے پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ اطلاعات کے مطابق ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ کے کیسز کی تعداد 8 ہزار تک پہنچ چکی ہے جن میں سے زیادہ تر کیسز کراچی سے رپورٹ ہوئے ہیں، اس کے علاوہ حیدرآباد، سانگھڑ اور دوسرے ملحقہ اضلاع سے بھی یہ کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ پی ایم اے کے ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پانی سے پیدا ہونے والا ایک خطرناک انفیکشن ہے جو بیکٹریم سلمونیلا ٹائی فائی جرثومے سے آلودہ پانی اور خوراک کے ذریعے پھیلتا ہے، تیز بخار، کم زوری، گلے کا درد، معدے کا درد، الٹی متلی، سر درد، کھانسی اور بھوک کا ختم ہوجانا اس کی چند علامات ہیں۔ پی ایم اے کے مطابق اس ٹائی فائیڈ سے بچاو ¿ کے لیے پی ایم اے کی جانب سے عوام کی رہنمائی کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر جاری کی گئی ہیں کہ عوام اس مرض سے بچنے کے لیے صاف اور ابلا ہوا پانی استعمال کریں، غیر معیاری برف کا استعمال نہ کریں، پھل، سبزیاں اور برتن ابلے ہوئے پانی سے دھوئیں، کھانا کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ صابن سے دھوئیں، بیت الخلاءسے آنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو صابن سے ضرور دھوئیں، گھر سے باہر کھانا کھانے سے ہر ممکن پرہیز کریں، ہمیشہ مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں، دوا آپ کے لیے زہر بن سکتی ہے جب آپ اس کا استعمال خود یا کسی کے کہنے پر کرتے ہیں، حکیم / ہومیو پیتھ اور دوسرے غیر متعلقہ حضرات اینٹی بایوٹک تجویز نہ کریں۔ سیمینار کے آخر میں پی ایم اے کراچی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر عبدالغفور شورو نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس سیمینار عوامی صحت کے اس اہم ترین مسئلے کا کوئی حل نکل آئے گا۔

Monday, March 4, 2019

جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں ہفتہ طلبہ کی اختتامی تقریب کا انعقاد

 تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی سرگرمیاں طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی لیے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کردارادا کرتی ہے، وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر سید محمد طارق رفیع 
 شعبہ طب سے وابستہ افراد کا کھیلوں کے لیے جوش خروش دیکھ کر ان کو اپنا تعلیمی دور یاد آتا ہے اور ایس ایم سی کا ماحول دیکھ کر ایک بار بھر طالب علم بننے کی خواہش جاگ اٹھی ہے، مہمان خصوصی فارمولا ون ریسر اویس نقوی
 اختتامی تقریب میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر لبنیٰ بیگ اور اسٹوڈنٹ کونسل کی چیئر پرسن ڈاکٹر غزالہ عثمان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی میں ہفتہ طلبہ کی اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب کے مہمان خصوصی پاکستان کی واحد بین الاقوامی گو کارٹنگ ٹیم ایکسٹریم ولوسٹی ریسنگ کے کپتان ڈاکٹر اویس نقوی تھے۔ اویس نقوی پروفیشنل فارمولا ون ریسر ہیں جو دنیا بھر میں ملک کا نام روشن کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد وائس چانسلر پروفیسر طارق رفیع نے مہمان خصوصی اویس نقوی کے ساتھ فاتح ٹیموں میں میڈلز اور انعامات تقسیم کیے۔ ہفتہ طلبہ کے دوران ہونے والے کھیلوں کے مقابلے میں کرکٹ، والی بال، بیڈ منٹن، فٹسال، تھرو بال، ٹیبل ٹینس، کانٹر اسٹرائیک، چیس، ایتھلیٹکس، ٹگ آف وار سمیت متعدد کھیل شامل رہے۔ جن میں جیتنے والے طلبہ کو میڈل اور شیلڈز دیے گئے جب کہ تقریب کے آخر میں سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والی ٹیم کو ہاوس کپ دیا گیا۔ کرکٹ کے مقابلے میں ایس ایم سی بوائز کی ٹیم فاتح رہی جب کہ گرلز کرکٹ کا مقابلہ انسٹی ٹیوٹ آف فارما سیوٹیکل سائنسز کی طالبات نے جیتا۔ والی بال گرلز اور بوائز کے مقابلے ایم ایس سی کے نام رہے۔ بیڈمنٹن کا گرلز مقابلہ آئی پی ایس جب کہ بوائز کا مقابلہ ایس آئی او ایچ ایس نے جیتا۔ ہاوس کپ ایس ایم بیسٹ21 نے اپنے نام کیا۔ اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر سید محمد طارق رفیع کا کہنا تھا کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں کی سرگرمیاں طلبہ کی ذہنی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ اسی لیے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی غیر نصابی سرگرمیوں کے فروغ میں اپنا کردارادا کرتی ہے۔ تقریب کے مہمان خصوصی فارمولا ون ریسر اویس نقوی کا کہنا تھا کہ شعبہ طب سے وابستہ افراد کا کھیلوں کے لیے جوش خروش دیکھ کر ان کو اپنا تعلیمی دور یاد آتا ہے اور ایس ایم سی کا ماحول دیکھ کر ایک بار بھر طالب علم بننے کی خواہش جاگ اٹھی ہے۔ اختتامی تقریب میں پرو وائس چانسلر ڈاکٹر لبنیٰ بیگ اور اسٹوڈنٹ کونسل کی چیئر پرسن ڈاکٹر غزالہ عثمان نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

سیلانی میڈیکل اینڈ ڈائیگنوسٹک سینٹر کی انسانی خدمات قابل تحسین ہیں، نواب وسان

ورلڈ ہیرنگ سیمینار میں سماعت سے محروم100سے زائد افراد کو ہیرنگ ایڈ بھی تقسیم کیے گئے، ڈاکٹر غزالی
کراچی (اسٹاف رپورٹر) سیلانی میڈیکل ڈائیگنوسٹک سینٹر نے انسانی خدمات کی اعلیٰ مثال قائم کی ہیں، ہم ان کے اس جذبے کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ اس بات کا اظہار وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی نواب وسان نے ورلڈ ہیرنگ ڈے سیمینار کے موقع پر سیلانی میڈیکل اینڈ ڈائیگنوسٹک سینٹر کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار جسمانی اعضاءعطا کیے ہیں لیکن یہ اسی کی قدرت ہے کہ کچھ انسان دنیا میں ایسے بھی ہیں جو آنکھیں تو رکھتے ہیں لیکن بصارت سے محروم ہیں، کان رکھتے ہیں لیکن سماعت سے محروم ہیں، زبان رکھتے ہیں لیکن گویائی سے محروم ہیں۔ نواب وسان نے مزید کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو اتنی قوت بھی عطا کی ہے کہ وہ اپنی ذہانت سے اس کا حل بھی تلاش کر لیتا ہے، سماعتی آلہ بھی انسانی ذہن کی ایسی ایجاد ہے جو سماعت سے محروم لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ نواب وسان کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ چیئرمین بلاول بھٹو کی ہدایت پر انسانی خدمات کو اولین ترجیح دیتی ہے، ہم سیلانی میڈیکل اینڈ ڈائیگنوسنگ سینٹر کی انسانی خدمات کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ ہر قدم پر ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کو بھی تیار ہیں، انہیں جب بھی ہماری ضرورت محسوس ہوئی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس موقع پر ان کے ساتھ پرائیویٹ سیکریٹری غلام یاسین، ڈاکٹر اصغر کنسلٹنٹ کرن اسپتال، ڈاکٹر منیر شیخ کنسلٹنٹ ای این ٹی، ڈاکٹر فہد مشرق سی ایم او، وزیر رضا، ایڈمنسٹریٹر سیلانی میڈیکل اینڈ ڈائیگنوسٹک سینٹر بھی موجود تھے۔ سی ای او سیلانی انٹرنیشنل ٹرسٹ ڈاکٹر محمد غزالی نے سماعت سے محروم لوگوں کے مسائل پر روشنی ڈالی اور نواب وسان سمیت تقریب کے شرکاءکی آمد پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ بعد ازاں تقریب کے اختتام پر مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ سندھ کے معاون خصوصی نواب وسان نے سی ای او سیلانی انٹرنیشنل ٹرسٹ ڈاکٹر محمد غزالی کے ساتھ 100سے زائد سماعت سے محروم لوگوں میں آلہ سماعت تقسیم کیے۔

Wednesday, February 27, 2019

ایوب خان کے دور میں تعمیر قدیم ترین ”جے مارکیٹ“جے ایریا کورنگی میں بھینسوں کا باڑہ قائم

علاقہ مکینوں کو شدید پریشانی کا سامنا، گائے بھینسوں کے گوبر وغیرہ کی گندگی سے بچوں اور بڑوں میں صحت کے مسائل پیدا ہونے لگے، علاقہ مکینوں کی جانب سے ڈپٹی کمشنر ضلع کورنگی کو درخواستیں دینے کے باوجود تا حال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی
 علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ بلدیاتی ادارے اس قدیم ترین مارکیٹ پر اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے اسے خستہ حالی سے نجات دلائیں اور صفائی ستھرائی کے انتظامات کو بہتر بنائیں تاکہ یہ مارکیٹ بحال ہو سکے
کراچی (اسٹاف رپورٹر) جے ایریا کورنگی کی قدیم ترین جے مارکیٹ کی دکانوں کے راستے پر قبضے کے بعد غیر قانونی گائے بھینسوں کا باڑہ قائم، علاقہ مکینوں کو شدید پریشانی کا سامنا، گائے بھینسوں کے گوبر وغیرہ کی گندگی سے بچوں اور بڑوں میں صحت کے مسائل پیدا ہونے لگے، علاقہ مکینوں کی جانب سے ڈپٹی کمشنر ضلع کورنگی کو درخواستیں دینے کے باوجود تا حال کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ تفصیلات کے مطابق جے ایریا کورنگی (لانڈھی زون) میں ایوب خان کے دور میں قائم کی جانے والی ”جے مارکیٹ“ ایک طرف صفائی ستھرائی نہ ہونے اور متعلقہ بلدیاتی اداروں کی عدم توجہی کے باعث خستہ حالی کا شکار ہے تو دوسری جانب قبضہ مافیا نے مارکیٹ کی دکانوں کے راستے پر قبضہ کر کے وہاں گائے بھینسوں کا باڑہ قائم کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہاں ہروقت گائے بھینسوں کے پیشاب اور گوبر کی وجہ سے گندگی پھیلی رہتی ہے اور بدبو کی وجہ سے علاقہ مکینوں کا رہنا محال ہو گیا ہے۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس بدبو اور گندگی کی وجہ سے ہمارے بچے بیمار ہو رہے ہیں اور ان میں سانس کے امراض پیدا ہو رہے ہیں، ڈپٹی کمشنر ضلع کو رنگی اور متعلقہ حکام کو متعدد پر شکایات درج کرانے اور درخواستیں دینے کے باوجود تا حال اس بھینس مافیا کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ 
علاقہ مکینوں نے بتایا کہ انہوں نے پہلے اپنے طور پر ان افراد سے بات کی کہ وہ رہائشی علاقے میں بھینسوں کا باڑہ قائم نہ کریں تاہم ان کے نہ ماننے پر 30 اگست 2018ءاور 15 فروری 2019ءکو اس بھینس مافیا کے خلاف ڈپٹی کمشنر ضلع کورنگی کو درخواستیں جمع کرائی تھیں کہ بھینس مافیا کے ثناءاللہ، ایاز انصاری اور دیگر نامعلوم افراد نے مارکیٹ کی دکانوں کے راستے پر قبضہ کر کے وہاں گائے بھینسوں کا باڑہ قائم کر لیا ہے جو غیر قانونی ہے۔ علاقہ مکینوں کی جانب سے دائر کی جانے والی درخواست کے مطابق یہ تمام حضرات علاقے میں غیر قانونی و غیر اخلاقی افعال کے حامل ہیں اور خود کو قانون سے بالا تر تصور کرتے ہیں، ان کے بھینسوں کے باڑے کے باعث پریشانیوں کا شکار ہیں، ان کے خلاف فوری قانونی کارروائی کی جائے تاکہ علاقہ مکینوں کو صحت کے مسائل اور دیگر پریشانیوں سے نجات مل سکے۔ علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ متعلقہ بلدیاتی ادارے اس قدیم ترین مارکیٹ پر اپنی توجہ مبذول کرتے ہوئے اسے خستہ حالی سے نجات دلائیں اور صفائی ستھرائی کے انتظامات کو بہتر بنائیں تاکہ یہ مارکیٹ بحال ہو سکے۔

Tuesday, February 26, 2019

اسلام نے ضرورت مندوں کی مدد کو عبادت کا درجہ دیا ہے، صدر مملکت

سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے دورے کے موقع پر صدر مملکت، مولانا بشیر فاروقی، عارف لاکھانی و دیگر کا خطاب
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) اسلام نے ضرورت مندوں لوگوں کی مدد کو عبادت کا درجہ دیا ہے اور تمام انسانوں کو رہنمائی فراہم کی ہے، پاکستان بالخصوص کراچی کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں بے شمار فلاحی پروگرام اور منصوبے مخیر حضرات چلا رہے ہیں اور لاکھوں لوگ اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ یہ بات صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے گزشتہ روز سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے دورے کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ٹرسٹ کے سرپرست مولانا بشیر فاروقی، صدر عارف لاکھانی، افضال چامڈیا، ضیاءالاسلام اور محمد غزال نے بھی خطاب کیا۔ ڈاکڑ عارف علوی نے کہا کہ حکومت سیلانی ویلفیئر کی خدمات کو سراہتی ہے اور پورے ملک میں ادارے نے خدمت کی ایک منفرد مثال قائم کی ہے اور بالخصوص نوجوانوں کو روزگار، تکنیکی تربیت، صحت اور خوراک کی فراہمی نے غریب لوگوں کی زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔ قبل ازیں صدر مملکت نے ٹرسٹ کے مختلف شعبوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انہیں ٹرسٹ کی کارکردگی سے آگاہ کیا گیا۔ اس موقع پر مولانا بشیر فاروقی نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیلانی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں نوجوانوں کا بڑا تربیتی پروگرام شروع کیا ہے اور ابھی 17500نوجوانوں کا ٹیسٹ لیا گیا ہے جس میں سے13400نوجوانوں کو صلاحیت کی بنیاد پر تربیتی پروگرام کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے، اس کے علاوہ روزانہ ایک لاکھ سے زائد افراد کو کھانا، ہزاروں کو صحت کی سہولیات، راشن پہنچایا جا رہا ہے اور اب سیلانی ویلفیئر فیصل آباد، لاہور، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں اپنی شاخیں قائم کر رہی ہے۔

ڈاﺅ یونیورسٹی میں اسپورٹس ویک کا باقاعدہ آغاز ہوگیا

 کھیل ایسی مصروفیت ہے جس کے ذریعے ہم اپنی تیز تر پیشہ ورانہ زندگی میں سے کچھ وقت نہ صرف اپنی ذات کے لیے نکال لیتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بھی مل لیتے ہیں، وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کا اوجھا کیمپس میں واقع جمنازیم میں سالانہ اسپورٹس ویک کی افتتاحی تقریب سے خطاب
کراچی (نیوز اپ ڈیٹس) ڈاﺅ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کہا ہے کہ کھیل ایسی مصروفیت ہے جس کے ذریعے ہم اپنی تیز تر پیشہ ورانہ زندگی میں سے کچھ وقت نہ صرف اپنی ذات کے لیے نکال لیتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے بھی مل لیتے ہیں۔ یہ باتیں انہوں نے منگل کی صبح اوجھا کیمپس میں واقع جمنازیم میں سالانہ اسپورٹس ویک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ اس موقع پر یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلرز پروفیسر محمد مسرور، پروفیسر خاور سعید جمالی، پروفیسر زرناز واحد، رجسٹرار ڈاﺅ یونیورسٹی پروفیسر امان اللہ عباسی، ڈائریکٹر اسپورٹس پروفیسر مکرم علی، ڈاﺅ میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر کرتار ڈوانی، ڈائریکٹر فنانس ندیم شکور جویری، پروفیسر نبیلہ سومرو، پروفیسر سنبل شمیم، پروفیسر امرینہ قریشی اور ڈاکٹر شوکت علی سمیت سینئر فیکلٹی ممبرز اور طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
 پروفیسر سعید قریشی نے کہا کہ ہر سال کھیلوں کی اس سرگرمی کے ذریعے ہم اپنے طلبہ کے مابین باہمی میل جول اور سماجی تعلقات کو پروان چڑھاتے ہیں تاکہ صحت مند سرگرمیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے تعارف حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ سالانہ اسپورٹس ویک کے دوران کچھ لوگ جیتیں گے اور بعض ہار بھی جائیں گے، ہارنے والے حوصلہ نہ ہاریں بلکہ نئے عزم کے ساتھ اگلی فتح کی تیاری کریں اور جیتنے والے آئندہ مقابلوں میں اپنی کام یابی برقرار رکھنے کے لیے مزید محنت کریں۔ اپنے خطاب کے آخر میں انہوں نے بہترین مقابلوں کے انعقاد پر ڈائریکٹر اسپورٹس پروفیسر سید مکرم علی اور ان کی ٹیم کی تعریف کی۔ پروفیسر سید مکرم علی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاﺅ یونیورسٹی کے13انسٹی ٹیوٹس کے درمیان مقابلوں میں 3000 طلبہ و طالبات پر مشتمل ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں، آج اسپورٹس ویک کے باضابطہ آغاز سے پہلے بھی سائیڈ میچز کھیلے گئے، اس طرح یہ سرگرمی اپنی تقریب تقسیم انعامات تک پورے ایک ماہ پر محیط ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 5 کوآرڈی نیٹرز،17 ایونٹ انچارج،36 فوکل پرسنز ان مقابلوں کا انعقاد ممکن بناتے ہیں۔ بعد ازاں پروفیسر محمد سعید قریشی نے ربن کاٹ کر سالانہ اسپورٹس ویک کا رسمی افتتاح کیا جب کہ تقریب کے آخر میں وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے اسپورٹس ویک کی کام یابی میں کردار ادا کرنے والے ہیڈ آف انسٹی ٹیوٹس سمیت دیگر اساتذہ میں شیلڈز تقسیم کیں۔

کورائی برادری کراچی ڈویژن کے صدر غلام مصطفیٰ کورائی کے صاحب زادے کے ولیمے کی تقریب کے موقع پر گروپ فوٹو


بالاکوٹ: انڈیا کا پاکستان میں جیشِ محمد کے کیمپ پر حملے کا دعویٰ، پاکستان کا انکار


آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ انڈین اسلحہ کی تصاویر
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47366220
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ انڈیا کے جنگی طیاروں نے منگل کو علی الصبح پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستانی طیاروں کے فضا میں آنے کے بعد وہ جلدبازی میں اپنا ’پے لوڈ‘ گرا کر واپس چلے گئے۔
ادھر انڈیا کا کہنا ہے کہ اس نے ایک ’غیر عسکری‘ کارروائی میں بالاکوٹ کے علاقے میں واقع کالعدم شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے کیمپ کو نشانہ بنایا ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ٹوئٹر پر اپنے پیغامات میں بتایا کہ انڈین فضائیہ کے طیاروں نے مظفر آباد کے پاس لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، لیکن پاک فضائیہ کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں وہ واپس چلے گئے۔
میجر جنرل آصف غفور نے یہ دعویٰ بھی کیا پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں انڈین فضائیہ کے طیاروں نے اپنا 'پے لوڈ' (جہاز پر موجود گولہ بارود) بالاکوٹ کے نزدیک گرا دیا، لیکن اس سے کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا۔
فوجی ترجمان کی پہلی ٹویٹ پاکستانی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے کے قریب کی گئی جس میں انھوں نے کہا کہ انڈین طیاروں نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے اور اس کی تفصیلات سے جلد آگاہ کیا جائے گا۔
اس کے کچھ دیر بعد ترجمان نے اپنے دیگر پیغامات میں اس واقعے کی مزید تفصیلات دیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈین طیارے لائن آف کنٹرول عبور کر کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے مظفرآباد سیکٹر میں تین سے چار میل اندر آئے۔ میجر جنرل آصف غفور کے مطابق چونکہ انڈین طیاروں کو واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا تو انھوں نے اپنا گولہ بارود گرا دیا جو ایک کھلے علاقے میں گرا۔
فوجی ترجمان کے مطابق یہ گولہ بارود نہ تو کسی عمارت پر گرا اور نہ ہی اس سے کوئی جانی نقصان ہوا ہے۔
خیال رہے کہ یہ سنہ 1971 کے بعد پہلا موقع ہے کہ انڈین جنگی طیارے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے ہیں۔
یہ واضح نہیں کہ انڈین طیاروں نے اپنا اسلحہ اور اضافی سامان کس مقام پر گرایا تاہم اس وقت بالاکوٹ اور مانسہرہ کے درمیان جابہ ٹاپ کے علاقے میں سکیورٹی اداروں کا سرچ آپریشن جاری ہے اور اس پورے علاقے میں ہائی الرٹ ہے
صحافی زبیر خان کے مطابق ضلع مانسہرہ کے علاقوں بالاکوٹ، گڑھی حبیب اﷲ، جابہ کے مقامی شہریوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے منگل کی صبح تین سے چار بجے کے درمیان چار سے پانچ زوردار دھماکوں کی آوازیں سنیں۔
بالاکوٹ اور مانسہرہ کے تھانوں کے اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ تین اور چار بجے کے درمیان عوام نے دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں اور لوگ ٹیلی فون کر کے تھانے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔
تھانہ بالاکوٹ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ چار بجے کے قریب مانسہرہ اور بالاکوٹ کی حدود میں واقع جابہ ٹاپ پر دھماکوں اور طیاروں کی نچلی پرواز کی آوازیں سنائی دی گئیں تاہم جب پولیس اہلکار جابہ ٹاپ پر پہنچے تو وہاں پہلے ہی سے سکیورٹی اہلکار موجود تھے جنھوں نے انھیں واپس بھیج دیا۔

انڈین ‌فضائیہ کا جیشِ محمد کے کیمپ پر بمباری کا دعویٰ

دہلی میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق انڈین سیکریٹری خارجہ وجے گوکھلے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن میں منگل کی صبح انڈیا نے بالاکوٹ میں واقع جیشِ محمد کے سب سے بڑے کیمپ پر حملہ کیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انڈیا کو لاحق ممکنہ خطرے کے پیشِ نظر جیشِ محمد کے کیمپ پر کی گئی کارروائی ایک ’غیر عسکری‘ کارروائی تھی اور خواہش تھی کہ شہری ہلاکتوں سے بچا جائے۔
ان کے مطابق یہ حملہ گھنے جنگل میں واقع پہاڑ کی چوٹی پر واقع ایک کیمپ پر کیا گیا جو شہری آبادی سے کافی دور تھا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اس آپریشن میں بڑی تعداد میں جیشِ محمد کے ’دہشت گرد‘، تربیت دینے والے، سینیئر کمانڈرز اور جہادیوں کے گروہ جو فدائی حملوں کے لیے تیار کیے جا رہے تھے ہلاک کر دیے گئے۔
نقشہ
تاہم انڈیا کی جانب سے تاحال اس کارروائی کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا ہے۔
انڈین سیکریٹری خارجہ کا دعویٰ تھا کہ بالا کوٹ میں واقع کیمپ مولانا یوسف اظہر عرف استاد غوری جو کہ جیشِ محمد کے امیر مسعود اظہر کے داماد ہیں چلا رہے تھے۔
انھوں نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کو بارہا معتبر اطلاعات اور انٹیلیجنس دی گئی کہ دہشت گرد اس کی سرزمین استعمال کر رہے مگر پاکستان کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اس لیے انڈیا نے فیصلہ کیا کہ اب ممکنہ حملے کو ٹالنے کے لیے جیشِ محمد کے خلاف ایک غیر عسکری کارروائی کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
انڈین فضائیہ یا وزارت دفاع کی جانب سے ابھی تک اس کارروائی کے بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے انڈین فضائیہ کے حوالے سے کہا ہے کہ میراج جنگی طیاروں نے ’کنٹرول لائن کے پار دہشت گردی کے ایک بڑے کیمپ کو تباہ کیا ہے۔‘
اے این آئی کے مطابق منگل کی صبج ساڑھے تین بجے انڈین فضائیہ کے 12 میراج 2000 طیاروں نے ایل او سی کے پار ایک بڑے ’دہشت گرد کیمپ‘ پر بمباری کی اور اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا ۔
خبر میں مزید بتایا گیا ہے کہ اس حملے میں ایک ہزار کلو گرام وزنی بم استعمال ہوئے۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کارروائی کے بعد پالیسی بیان میں کہا ہے کہ انڈیا نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان اپنے دفاع میں جواب دینے کا حق رکھتا ہے۔
بالاکوٹ میں انڈین فضائیہ کے مبینہ حملے کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ تصویرتصویر کے کاپی رائٹISPR
Image captionپاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ انڈیا کی اس کارروائی میں کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا

اوڑی حملہ اور سرجیکل سٹرائکس

یہ پہلا موقع نہیں کہ انڈیا کی جانب سے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے کسی واقعے کے بعد ایل او سی کے پار کارروائی کا دعویٰ کیا گیا ہو۔

پلوامہ حملہ اور پاکستان پر الزام

14 فروری کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے اس خود کش حملے میں انڈیا کے نیم فوجی دستے سی پی آر ایف کے 40 سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروپ جیش محمد نے قبول کی تھی۔ پلوامہ حملے کے کچھ دیر بعد جیش محمد کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں مبینہ حملہ آور، عادل ڈار نامی ایک نوجوان کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف جاری ظلم و بربریت کے بارے میں بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔
انڈیا کی جانب سے 14 فروری کو ہونے والے واقعے میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا لیکن پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔
انڈیا کی جانب سے لگائے گئے الزام کے نتیجے میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے 19 فروری کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کو پلوامہ میں نیم فوجی اہلکاروں پر ہونے والے خودکش حملے کی تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر انڈیا نے پاکستانی سرزمین پر کارروائی کی تو پاکستان اس کا منھ توڑ جواب دے گا۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ انڈین اسلحہ کی تصاویرتصویر کے کاپی رائٹISPR
ستمبر 2016 میں ایل او سی کے قریب شمالی کشمیر کے قصبے اُوڑی میں ایک فوجی چھاؤنی پر ہونے والے مسلح حملے میں 20 فوجیوں کی ہلاکت کے دس روز بعد انڈیا نے پاکستان کی حدود میں ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کا دعوی کیا، تاہم پاکستان نے اس کی تردید کی تھی۔
لائن آف کنٹرول کی یہ حالیہ خلاف ورزی بھی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات پلوامہ خودکش حملے کے بعد تقریباً دو ہفتوں سے انتہائی کشیدہ ہیں۔
اس کے بعد 22 فروری کو پاکستانی فوج کے ترجمان نے بھی کہا کہ جب بھی پاکستان میں کچھ اہم واقعات ہونے والے ہوتے ہیں تو انڈیا یا کشمیر میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا انڈیا کو سوچنا چاہیے کہ آخر کشمیریوں میں موت کا خوف کیوں ختم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے انڈیا کی جانب سے فوری الزامات کا جواب دینے کے لیے کچھ وقت لیا کیونکہ ہم اپنی تحقیقات بھی کرنا چاہتے تھے۔

کشمیر میں سکیورٹی تنصیبات پر ہائی الرٹ

سری نگر میں بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض مسرور کے مطابق وادی میں انڈین فوج اور نیم فوجی اداروں کی تنصیبات پر منگل کی صبح حفاظتی انتظامات انتہائی سخت کرتے ہوئے ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔
یہ ہدایات انڈین فضائیہ کے پاکستان میں فضائی حملوں کے فوراً بعد جاری کی گئیں۔ نامہ نگار کے مطابق سرینگر اور پونچھ کے اضلاع میں رات بھر جنگی طیارے بھی پرواز کرتے رہے جس سے لوگ خوفزہ ہو گئے۔
ادھر وادی میں علیحدگی پسندوں کے خلاف حکومت کے کریک ڈاؤن میں بھی تیزی آئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے این آئی اے نے منگل کی صبح میر واعظ عمر فاروق کے گھر پر چھاپہ مارا۔ یاسین ملک اگرچہ پہلے ہی پولیس حراست میں ہیں تاہم این آئی اے اہلکاروں نے لال چوک میں واقع ان کے گھر پر بھی منگل کو چھاپہ مارا۔ (بہ شکریہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام)

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان

قوم نے دیکھ لیا ہے کہ شہباز شریف کتنے دلیر اور جرات مند ہیں، وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان لاہور (نیوز اپ ڈیٹس) وزیر اطلاعات پن...